انوکھے واقعات جو انسانی عقل کے لیے چیلنج ہیں
جدید سائنس کوشش کے باوجود کائنات کے ان پراسرار، خوف زدہ کر دینے والے رازوں کا بھید نہ پاسکی۔
It was published on 16 August 2020 in
Sunday Magazine Express news paper
تجسس ، تلاش اور کھوج انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ یہ جستجو ہی ہے جس نے انسان کو اس کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے پر اکسایا اور آمادہ کیا۔
انسان کو اس کی عقل اور استدلال نے اس قابل بنایا کہ وہ کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھا سکے، اور یہی نہیں بلکہ اس نے اپنے ربّ کی تحیرخیز کائنات کواپنی عقل، فہم اور تدبر سے تسخیر کرنے کے لیے بھی قدم بڑھائے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
اکیسویں صدی کا انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ ترقی اور شعورکی حدوں کو چھو رہا ہے، لیکن اس مرقعِ اسرار و تحیّر میں، جسے ہم کائنات کہتے ہیں، قدرت اپنے ایسے اعجازو کمالات لے کر بھی سامنے آئی جب انسان اپنے عقلی اور منطقی استدلال ، بہترین اور جدید سائنٹفک آلات، ٹیکنالوجی اور طرح طرح کی سہولیات سے آراستہ تجربہ گاہیں رکھنے کے باوجود ان کے بارے میں سائنسی اور عقلی توجیہہ دینے میں ناکام ہو گیا اور بے بس نظر آیا۔
بہت ممکن ہے کہ کچھ عرصے بعد یہی راز اور ایسے واقعات انسانوں کے لیے معما نہ رہیں لیکن فی الوقت دنیا بھر کے مفکرین اور سائنس دانوں کے پاس کائنات میں پیش آنے والے کئی واقعات کی کوئی دلیل، منطق، سائنسی توجیہہ موجود نہیں اور وہ ا ن سے متعلق حتمی بات کرنے یا ان کا کوئی حل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ یہاں ہم چند ایسے واقعات کا تذکرہ کررہے ہیں جنھیں پراسرار اور انسانی عقل کے لیے چیلنج کہا جاسکتا ہے۔
فائر ٹورنیڈو
اگست 2018 میں کیلیفورنیا کے جنگل میں آگ لگ گئی۔ یہ آگ گویا قیامت صغریٰ تھی۔ اس آگ نے تیزی سے شہر کا رخ کیا اور ڈھائی لاکھ لوگوں کو ہنگامی طور پر نقل مکانی پر مجبور کر دیا۔ آگ کے شعلے 18 میٹر تک بلند ہورہے تھے۔ تقریباً سات ہزار گھر اور کاروباری مقامات تباہ ہوگئے جس کی وجہ سے اسے ریاست کا سب سے تباہ کن آتش زدگی کا واقعہ کہا گیا
اس واقعے کا ایک خوف ناک منظر یہ تھا کہ آگ اور دھویں نے ایک بہت بڑے ٹور نیڈو (آتش باد) کی شکل اختیار کر لی جوآسمان میں کئی ہزار فٹ تک بلند ہوا اور اسے دو میل دور سے بھی دیکھا جا سکتا تھا۔ آگ کے اس طوفانی شکل اختیار کرلینے کے باعث پورے شہر میں گرم ہوائیں چلنے لگیں ۔ دنیا نے اس سے پہلے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا۔ یہ سلسلہ خو د ہی تھما اور ختم ہو گیا، لیکن جنگل میں بھڑکنے والی آگ سے آتش باد نے کیسے جنم لیا؟ ماہرینِ سائنس اس گتھی کو سلجھانے سے قاصر ہیں۔
برف کا طوفان
امریکا کا شمالی علاقہ منیسوٹا متعدد عظیم جھیلوں پر مشتمل ہے۔ اسے امریکا کی 32 ویں ریاست تسلیم کیا گیا ہے اور اسے دس ہزار جھیلوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔یہاں مختلف برسوں کے دوران ناگہانی آفت کی وجہ سے مالی اور جانی نقصانات ہوتے رہے ہیں جن میںسب سے خطرناک ایک جھیل میں برف کا طوفان ہے جو اپنی نوعیت کا عجیب واقعہ ہے۔ دریاؤں کا بپھرنا یا سمندری طوفان یا شدید برف باری کوئی نئی بات نہیں اور ان قدرتی آفات کے نتیجے میں انسان نے مالی اور جانی نقصانات بھی جھیلے ہیں، مگر کسی جھیل میں بننے والا برف کا طوفان انسانی آنکھ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ خوف ناک بات یہ ہے کہ برفانی طوفان جھیل اور اس کے قرب و جوار تک محدود نہ رہا بلکہ میلوں دور تک تباہی کا باعث بنا۔اس طوفان کے دوران تیز ہواؤں کی وجہ سے برف کی بڑی بڑی سلوں کے ٹکڑے جھیل کے کناروں اور اس سے دور جاکر گررہے تھے۔
دیکھتے ہی دیکھتے برف کے یہ ٹکڑے آبادی تک پہنچ گئے اور پوری قوت سے عمارتوں اور گاڑیوں سے ٹکرائے جس کی وجہ سے انھیں شدید نقصان پہنچا۔ اسی طرح کا ایک طوفان کینیڈا کے صوبہ مینی ٹوبا میں بھی آیا تھا۔ کینیڈین براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے اس واقعے کو رپورٹ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ڈوفن جھیل کے قریب 75 میل شمال مغرب میں برف کے طوفان نے کئی مکانات تباہ کردیے۔ یہ 2013 کی بات ہے جس میں وہاں اٹھنے والی 30 فٹ اونچی برف کی دیوار اتنی طاقت ور تھی کہ اس نے راستے میں آنے والے درختوں، اسٹریٹ لائٹوں غرض ہر شے کو گویا ڈھانپ لیا تھا ۔ ایسی ناگہانی آفت اس سے پہلے دنیا نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ سائنس دانوں کے لیے بھی برف کا طوفان ایک عجوبہ اور معما ہے۔
ہزاروں پرندوں کی شہر پر یلغار اور پراسرار موت
نومبر2007 میں امریکا میں آسٹن نامی ہائی وے پر پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا جو عجیب وغریب اشکال بناتے ہوئے محوِپرواز تھے۔ یہ پرندے ایک ساتھ پرواز کرتے اور ایک ساتھ سڑک کے کنارے بیٹھتے دیکھے گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق اگر ان کے غول میں کوئی اور پرندہ آجاتا تو یہ اسے مارتے اور بھگا دیتے۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور پھر تقریباً تین ہفتوں بعد اچانک یہ پرندے زمین پر گر کر یوں مرنے لگے جیسے کسی نے انھیں مار گرایا ہوا حالاں کہ مقامی لوگوں نے یا انتظامیہ کی جانب سے ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا تھا۔یہ پرندے بڑی بڑی بلڈنگوں کے شیشوں سے ٹکراتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے اور ان کے ٹکرانے سے عمارتوں کے شیشوں کو بھی نقصان پہنچا۔
سڑکوں پر گرنے والے پرندوں کے مردہ جسموں نے دیکھنے والوں کو خوف میں مبتلا کردیا تھا جسے دور ہونے میں چند ہفتے ضرور لگے۔ سائنس داں آج تک نہیں جان سکے کہ یہ سب پرندے اچانک کہاں سے شہر میں داخل ہوئے اور پھر ایسا کیا ہوا کہ یہ پرندے خود ہی آسمان سے گر کر مر گئے؟ سائنس داں اس حوالے سے مختلف مفروضوں اور قیاس آرائیوں تک محدود رہے ہیں اور خیال کیا کہ یہ سب موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔
گڑھے جو خودبخود نمودار ہوئے
یہ 2014 کی بات ہے جب اچانک ہی سائبیریا کے مختلف علاقوں میں بڑے بڑے گڑھے نمودار ہونے لگے ۔ ان میں پینسلوا کے نزدیک بننے والا ایک گڑھا سو فٹ چوڑا تھا جس نے سائنس دانوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ ان گڑھوں اور خاص طور پر اس سو فٹ چوڑے گڑھے سے متعلق ماہرینِ ارضیات اور دیگر سائنس دانوں نے مختلف تھیوریز پیش کی ہیں۔ تاہم یہ گڑھے قدرت کے رازوں میں سے ایک ہیں جن پر تاحال تحقیق جاری ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ زمین کے اندر تغیر اور تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں اور بعض سائنس دانوں نے ان گڑھوں کو گلوبل وارمنگ کا نتیجہ بتایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان پراسرار گڑھوں کے بارے میں سائنس داں کوئی حتمی رائے نہیں دے سکے اور یہ اب بھی ایک معما ہیں۔
مکڑی کے جالے
پاکستان میں 2010 میں بہت زیادہ بارشیں ہوئی تھیں اور کہا گیا تھا کہ پاکستان میں 30 سال کے دوران کبھی ایسی بارشیں ریکارڈ نہیں ہوئیں۔ان بارشوں کی وجہ سے کئی علاقوں میں سیلاب آگیا اور انسانوں کے ساتھ ساتھ کے مختلف حیوانات بھی اپنی زندگی اور اپنے ٹھکانوں سے محروم ہوگئے، لیکن مکڑی جسے حشرات الارض میں شمار کیا جاتا ہے، سیلابی پانی سے بچنے کے لیے درختوں پر چڑھ گئیں۔ ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں درختوں پر چڑھ جانے والی ان مکڑیوں نے چند روز ہی میں درختوں پر ایسے جالے بنالیے کہ بڑے اور گھنے درخت ان میں چھپ گئے۔ یہ منظر دیکھنے والی آنکھوں میں جہاں حیرت تھی وہیں خوف بھی! انسانی تاریخ میں ایسا کرشمہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا ان جالوں کی وجہ سے مکڑیاں بالکل محفوظ رہیں اور اس کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مچھر ان جالوں میں پھنس کر مر گئے جس کی وجہ سے سیلاب زدہ علاقوں میں ملیریا کا خطرہ بھی ٹل گیا۔
٭جھیل جو گرمیوں میں غائب ہو جاتی ہے
امریکا کی ریاست اوریگون کی مشہور ’’گم شدہ جھیل ‘‘ سانتیم ہائی وے Santiam pass highway کے قریب واقع ہے ۔اس کا نام گم شدہ جھیل اس لیے پڑا کہ یہ گرمیوں کے موسم میں غائب ہو جاتی ہے۔ سردیوں کا آغاز ہوتا ہے توگویا یہ اپنا وجود ظاہر کردیتی ہے اور دکھائی دینے لگتی ہے۔ سردیوں میں یہ جھیل پچاسی ایکٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلی ہوتی ہے اور اس کی گہرائی نو فٹ تک ہوتی ہے، لیکن اس وسیع رقبے پر پھیلی جھیل کا پانی گرمیاں آتے ہیں اچانک غائب ہو جانا انتہائی حیرت انگیز بات ہے۔
کئی سال کی کوشش کے بعد سائنس دانوں کو پتاچلا ہے کہ موسمِ گرما میں جھیل کا پانی دراصل یہاں بنے دو پراسرار گڑھے نگل لیتے ہیں جن کو لاوا ٹیوب کہتے ہیں۔ سائنس داں ان گڑھوں تک تو پہنچ گئے ، لیکن وہ ان پراسرار گڑھوں کی وجہِ تشکیل، ان کی گہرائی جاننے میں ناکام ہیں۔ یوں اس جھیل کا گرمیوں میں گویا گڑھوں میں قید ہو جانا اور سرد موسم میں نمودار ہوجانا ایک راز اور ایسا معما ہے جسے جدید دور میں بھی حل نہیں کیا جاسکا۔
آگ کے اوپر سے بہتا پانی
چیسٹنٹ ریج پارک (Chestnut Ridge Park) میں صدیوں سے پانی کے درمیان آگ جل رہی ہے جسے ایک اعجوبہ اور دنیا کا انتہائی پراسرار قدرتی مقام مانا جاتا ہے۔ نیویارک کے اس پراسرار مقام پر انسان کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرسکتا ہے کہ کس طرح ایک پتھریلی سطح کے نیچے جیسے الاؤ روشن ہے اور اوپر سے پانی کا جھرنا بہہ رہا ہے۔ یہ تو کوئی نہیں جانتا کہ یہ آگ اور پانی کا یہ کھیل کب شروع ہوا مگر کہتے ہیں کہ صدیوں سے یہاں آگ کے اوپر سے پانی جھرنے کی صورت بہہ رہا ہے ۔ یہ انسانی آنکھ کے لیے ایک حیران کن نظارہ ہے کیوں کہ عام حالات میں آگ اور پانی ایک ساتھ اپنی اپنی قوت کا مظاہرہ نہیں کرسکتے۔ یہ آگ اور جھرنا یہاں آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتا ہے اور دنیا کے لیے ایک پراسرار اور ناقابلِ فہم حقیقت ہے۔ ماہرین اور سائنس دانوں نے اسے اپنے علم اور عقل کے مطابق سمجھنے اور آلات سے کھوجنے کی کوشش کی، مگر اس حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کر سکے۔
٭ بندوق کی سست رفتار گولی جس نے بیس سال بعد اپنے ہدف کو نشانہ بنای
ٹیکساس، امریکا میں 1893 میں پیش آنے والا یہ واقعہ انسانی عقل کے لیے چیلنج ثابت ہوا اور یادگار بن گیا۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ایک بندوق کی گولی نے اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے بیس سال گویا انتظار کیا!یہ یقینا ناقابلِ یقین ہے، مگر یہ سچ ہے کہ جب ہنری نامی لڑکے نے اپنی محبوبہ کو دھوکا تو اس نے خودکشی کرلی ۔ اس لڑکی کے بھائی نے ہینری سے بدلہ لینے کی ٹھانی۔ وہ بندوق لے کر ہنری کو قتل کرنے کے ارادے سے نکلا اور اس کے گھر کے صحن میں اُسے گولی مار دی۔ ہنری زمین پر گرا تو لڑکی کا بھائی سمجھا کہ وہ اس کی گولی لگنے سے مر چکا ہے۔ اس نے بھی اسی بندوق سے خود کو گولی مار کر اپنی زندگی ختم کرلی۔ مگر قسمت کا کھیل دیکھیے۔ گولی ہنری کو چھوتی ہوئی صحن میں موجود درخت میں دھنس گئی تھی۔
ہنری کے چہرے پر معمولی خراش آئی تھی۔ وہ زندہ بچ گیا تھا۔اس واقعے کے بیس سال بعد 1913میں ہنری کو اپنے گھر کی مرمت کے لیے لکڑی کی ضرورت پڑی تو اس نے اپنے گھر کے صحن میں موجود اس درخت کو کاٹنے کا سوچا جس میں وہ گولی دھنسی ہوئی تھی جو اس کی جان لینے کی نیت سے چلائی گئی تھی۔ درخت کی لکڑی پائے دار اور سخت تھی جو کسی طور پر آرے سے نہیں کٹ رہی تھی، لہٰذا ہنری نے بارود کے ذریعے درخت کو اڑانے کا فیصلہ کیا اور جیسے ہی دھماکا ہوا درخت میں دھنسی بیس سال پرانی گولی تیزی سے نکل کر ہنری کے سر میں لگی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔اسے ہم محض اتفاق کہہ سکتے ہیں، لیکن جہاں یہ واقعہ ہمیں حیرت میں مبتلا کرتا ہے، وہیں انسان اس کی وضاحت دینے سے بھی قاصر ہے۔
Mike the headless chicken ... سر کٹا مرغا
یہ اپنی نوعیت کا ایک عجیب بلکہ انتہائی پراسرار واقعہ ہے جو 1945میں کولوراڈو (امریکا) میں ایک کسان کے ساتھ پیش آیا۔ ایک روز اس نے اپنے فارم سے مرغا نکالا تاکہ اسے پکا کر کھا سکے اور کلہاڑی سے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ گردن کٹتے ہی مرغا پھڑپھڑانے لگا۔ کسان نے چند لمحے انتظار کیا کہ وہ ٹھنڈا ہو تو اس کی کھال ادھیڑے اور اس کے گوشت کو اپنی خوراک بنائے، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ سَر سے الگ، دور گرا ہوا مرغے کا جسم مسلسل حرکت کر تا رہا۔ اور پھر اچانک مرغا اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا۔
یہی نہیں بلکہ وہ دوڑنے لگا۔کسان اور اس کے اہل خانہ کے لیے یہ منظر انتہائی خوفزدہ کردینے والا تھا۔ اور اس وقت ایک اور خوف زدہ کردینے والی بات یہ ہوئی کہ مرغے کے جسم سے مختلف آوازیں آنے لگیں۔کسان نے مرغے کو ایک ڈبّے میں بند کر دیا۔ اگلی صبح جب کسان نے اس ڈبّے کو کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مرغے کا جسم نہ صرف متحرک ہے بلکہ سر کٹے مرغے کے دھڑ سے آوازیں بھی نکل رہی ہیں اور وہ چل پھر بھی رہا ہے۔
تجسس کے مارے کسان نے اسے پائپ کے ذریعے پانی اور کھانا دینا چاہا تو اس مرغے نے خوراک اگلنے کے بجائے نگلنی شروع کر دی۔امریکی اخبارات کے ذریعے دنیا بھر میں اس مرغے کا چرچا ہوگیا اور اسے مائیک ہیڈ لیس چکن کے نام سے شہرت ملی۔ مائیک کے لیے مرغے کی یہ شہرت آمدنی کا ذریعہ بنی جب اس نے باقاعدہ اس کی نمائش شروع کردی۔یہ مرغا 18 ماہ بعد مر گیا، لیکن دنیا کو حیرت میں ڈال گیا۔ اپنی نوعیت کا یہ عجیب واقعہ تھا جو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کوئی جان دار کیسے سَر کاٹ دیے جانے کے باوجود اتنا عرصہ زندہ رہا
9 Comments
بہت شاندار تحریر ہے ۔ یہ سب واقعات اپنے وقت میں کافی مشہور ہوئے اور لوگوں کی توجہ حاصل کی ساتھ البتہ سورس بتایا کریں ۔ اس سے مزید جاننے والوں کو راہنمائی ملتی ہے۔
ReplyDeleteHenry ki goli jo darakht usay maari 😜.
ReplyDeleteI think I've heard about 3-4 stories but rest was new for me.
Nice write ups
ReplyDeleteNice write ups
ReplyDeleteNice write ups
ReplyDeleteزبردست کولیکشن
ReplyDeleteExcellent collection
ReplyDeleteماورائے عقل ان واقعات کی سائنسی توجیہات پیش کی جاسکتی ہیں لیکن بہرحال یہ واقعات پراسراریت لیے ہوئے ہیں
ReplyDeleteمعلومات پر مشتمل مفید تحریر
ReplyDeletethanks a lot