یہ کالم کل 24 اکتوبر 2021 کو ایکسپریس سنڈے میگزین میں شائع ہوا ہے 

لنک👇

https://www.express.pk/story/2238847/9812.


کیا آپ کا شوہر گیس لائٹر ہے؟
24 ستمبر 20201
تحریر سائرہ فاروق

" کن سوچوں میں گم ہو، کیا کوئی یاد آ گیا؟" اکثر اس کے خاوند کا زہریلا جملہ اس کے اعصاب کے لیے آزمائش بنتا اور وہ جزبز ہو جاتی ـ
موبائل ہاتھ میں ہوتا تو کہتا "کیا بات ہے بڑا مسکرا رہی ہو؟ " اور وہ سٹپٹا جاتی ـ
کبھی کہتا، "تم نے شادی سے پہلے بھی تو سیکس کیا ہوگا آخر کو لڑکوں کے ساتھ پڑھتی رہی ہو؟
وہ ناگواری سے انکار کرتی تو وہ بنا احساس کیے سوالوں کی تکرار شروع کر دیتا.... 
وہ گفتگو کے اس موڑ پر سختی اور ناگواری کا اظہار کئی بار کر چکی تھی مگر وہ تو جیسے سمجھنے کو تیار ہی نہ تھا ـ



" کوئی آیا تھا" اس کا خاوند گھر میں داخل ہوتے اکثر یہ جملہ انتہائی مشکوک انداز میں ایسے ادا کرتا کہ وہ مجرم سی بن جاتی ـ
" کوئی نہیں آیا" وہ اسے ہمیشہ جواب دیتے ہوئے پریشان رہنے لگی ـ
دروازہ ذراسی تاخیر سے کھلتا تو وہ فوراً سوال جڑ دیتا "اتنی دیر سے دروازہ کیوں کھولا؟ "
اور تیز تیز قدموں سے ایسے داخل ہوتا جسے خدا نخواستہ وہ کسی مرد کے ساتھ رنگ رلیاں منانےکی عادی مجرم ہو ـ
"یہ پچھلا دروازہ کیوں کھلا ہے؟"
ساتھ والی ہمسائی آئی تھی"
" کہاں ہے ہمسائی؟ اس کا لہجہ تیز اور آنکھوں میں شک کے چابک لہرا رہے ہوتے ـ
"وہ تو یہاں نہیں ہے، ظاہر ہے وہ چلی گئی ہیں جب میں آپ کے لئے دروازہ کھولنے آئی تو"  وہ رندھے لہجے سے صفائی دینے کی کوشش کرتی تو وہ رد کرتا چلا جاتا ـ " بکواس کرتی ہو، سیدھی طرح بتاؤ کس سے بات کر رہی تھی؟" اور طیش کے عالم میں مسلسل ایک ہی سوال دوہرائے جاتا ـ
اور وہ ان بے بنیاد الزامات سے زچ ہو کر رونے لگتی
"  کیسے یقین دلاؤں ایسا کچھ نہیں، ساتھ والی باجی ہی تھیں، ان سے بات کر رہی تھی اگر یقین نہیں تو باجی سے پوچھ لیں ـ"


" باجی بھی تیرے جیسی ہی ہوگی، میں کیسے یقین کروں؟
دھند لائے زہن کے ساتھ وہ اپنے گیس لائٹر بنے شوہر کے سامنے ہر ممکن وضاحتیں پیش کر کے اتنی تھک چکی تھی کہ مزید بولتی تو وہ ہاتھ اٹھا لیتاـ
وہ شادی کے اس تمام عرصے اپنے کردار کو مشکوک بنانے والے اس شخص کے جارحانہ رویوں کی وجہ سے کھل کر احتجاج بھی نہیں کر سکتی تھی
کہ اگر وہ احتجاج کرتی تو وہ اس قدر متشدد زہن کا شخص تھا کہ اس کے ذرا سے بولنے پر ہاتھ اٹھانے میں تاخیر نہ کرتاـ
اسی ڈر نے اسے خاموش رہنے پر مجبور کر دیا لیکن اس کا حوصلہ شادی کے صرف چار ماہ کے اندر ہی جواب دینے لگا ان سوالوں سے بچنے کے لیے اس نے اپنے ہمسائے، رشتے داروں میں جانا ترک کر دیاـ


شک اور پھر اس کے اوپر بےبنیاد جرح، سیکس سے متعلق بےمقصد سوالات کا عین خوشگوار لمحات میں شروع ہو جانا ازدواجی تعلق کو مسلسل خوف سے بھرنے لگا تھا ـ
یہ ہمارے پدرسری سماج میں صرف ایک کہانی نہیں تھی بلکہ ایسی کئی کہانیاں ہمارے ارد گرد موجود ہیں جس میں نئی نویلی دلہنیں شادی کے شروع دن سے لے کر آنے والے کئی سال ازدواجی تعلق میں گیس لائٹنگ کا شکار بن جاتی ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ اس مرض کا علم نہیں رکھتیں جس کی وجہ سے بدترین زہنی تناؤ میں مبتلا رہتی ہیں ـ
لیکن یہ گیس لائٹنگ ہے کیا؟
گیس لائٹنگ ایک نفسیاتی ذہنی دباؤ کی ایسی شکل ہے جہاں ایک فرد دوسرے فرد کو ذہنی طور پر اس حد تک کمزور کر دیتا ہے کہ اس کا اپنے دماغ سے کنٹرول ختم ہو جاتا ہے ـ
گیس لائٹر جھوٹ کو سچ بنا کر متاثرہ فرد کو یہ باور کرواتا ہے کہ ان کے رشتے میں جو بھی غلط ہو رہا ہے اس کی وجہ وہ خود ہے  ـ اور یوں گیس لائٹی احساس جرم میں مبتلا ہو کر اپنی ذہانت یاداشت اور قابلیت پر شبہ کرنے لگتی ہے ـ بدقسمتی سے زیادتی کی اس قسم کی نشاندہی کرنا آسان نہیں، کیوں کہ بد سلوکی کرنے والا مرد آہستہ آہستہ عورت کی عزت نفس کو ختم کر دیتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ عورت کو یہ لگنے لگتا ہے کہ وہ واقعی غلط اور قصور وار ہے اور اسی کی وجہ سے رشتہ خراب ہو رہا ہے جبکہ اس کا پارٹنر صحیح کہہ رہا ہے ـ مزید برآں اس کا پارٹنر جذباتی استحصال اس طرح سے کرے گا کہ اسے احساس تک نہ ہوگا ـ گویا آپکی مرضی، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ایک شخص کے کنٹرول میں آ جاتی ہے  تو اس کیفیت کو انگریزی کی اصطلاح میں گیس لائٹنگ کہا جاتا ہے ـ
اب یہ اصطلاح نفسیات کی لغت میں بھی شامل ہو چکی ہے ـ
گیس لائٹ کا ماخذ
، گیس لائٹ کی اصطلاح 1938  کے برطانوی اسٹیج ڈرامے کے عنوان گیس لائٹ سے ماخوذ ہے ـ  1944 میں امریکہ نے اس عنوان کے تحت فلم بنائی جس  کے مرکزی کردار دو میاں بیوی ہیں، 
اس فلم میں شوہر گھر میں گیس لائٹ کی لو کم یا تیز کر کے بیوی کو یقین دہانی کرواتا ہے  کہ اس کا ذہنی توازن بگڑ چکا ہے اور یاداشت ختم ہوتی جارہی ہے اور یوں اس کے ذہن میں وسوسے، شکوک اور بے یقینی پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ـ
اس مقصد کے لئے وہ انتہائی چالاکی سے گیس لائٹ کو کم یا تیز کرکے چیزوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں چیز کہاں ہے؟
حالانکہ وہ چیز ہیروئین نے خود اپنے ہاتھوں سے رکھی ہوتی ہے لیکن اب وہ اپنی جگہ پر نہیں ہوتی ـ اس کے علاوہ جب وہ کم روشنی کی شکایت کرتی ہے تو ہیرو اسے وہم قرار دیتا ہے ـ
ایک منظر میں جب ہیروئن کسی اجنبی کو دیکھ کر بے ساختہ مسکرا دیتی ہے تو یہ مسکراہٹ بھی الزام بنا کر اس کے سر تھوپ دی جاتی ہے ـ
ہیرو کہتا ہے کہ یقیناً تم اسے جانتی ہو تب ہی مسکرائی اور تم پارٹی میں بھی اسی کی وجہ سے گئی ـ وہ انکار کرتی ہے تو وہ  اسے جھوٹا قرار دیتا ہے ـ ہیرو مسلسل ہیروئن کو اپنی بے بنیاد الزامات،تنقید اور شک کے شکنجے میں اس طرح جکڑتا چلا جاتا ہے کہ وہ اس جرم میں مبتلا ہوکر خود پر سے اعتماد کھونے لگتی ہے ـ شوہر یہ تمام حرکات  لَو کم یا تیز کر کے کرتا تھا اس لیے اس حرکت کا نام ہی گیس لائٹ ایفیکٹ پڑ گیا
گیس لائٹنگ کے عنوان سے متاثر ہو کر  بہت سی فلمیں منظرعام پر آئیں جیسے..
The girl on the train,
Sleeping with the enemy
                                       


   
گیس لائٹنگ کے نقصانات
گیس لائٹنگ کا دائرہ کار صرف میاں بیوی کے رشتے میں نہیں ہوتا بلکہ طاقت اور اختیار کا ہما جس کے سر پر بیٹھا ہو وہ معاشرے میں کمزور ذہن کو یرغمال بنانے کی قدرت رکھتا ہے جیسے دفاتر میں باس اپنے ماتحت کو زہنی دباؤ کا شکار کرتا ہے ـ اولاد اکثر والدین کی جانب سے تختہ مشق بنتی ہے ـ دوست ججمنٹل بن کر اپنے ہی دوست کی زندگی  اجیرن کر رہے ہوتے ہیں ـ
لیکن اس بدترین رویے سے گزرنے والے متاثرین اپنی زندگی کا کوئی بھی فیصلہ خود سے کرنے کے قابل نہیں رہتے ـ
چونکہ موضوعِ گفتگو خانگی امور کے دو اہم رکن زوجین سے ہے ـ لہذا انھی کو زیر بحث لاتے ہیں ـ کیونکہ ہمارا پورا سماجی ڈھانچہ انھی کے ارد گرد تعمیر ہوتا ہے، اگر اس رشتے کی بنیاد میں ہی ایک فرد دوسرے فرد کو اپنی ملکیت سمجھنے لگے تو خیر کے نتائج نکالنا مشکل ہیں ! جس سے خاندان ہی نہیں پورا سماج متاثر ہوتا ہے ـ
ایک گیس لائٹر خاوند اپنے رویے سے عورت کی شخصیت کو مکمل تباہ کر سکتا ہے ـ اسے یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ اسے بنیادوں سے ہلا چکا ہے اور وہ مسلسل ٹوٹ پھوٹ رہی ہے ـ دراصل وہ یہی تو چاہتا ہے کیونکہ وہ ایک مضبوط عورت برداشت ہی نہیں کر سکتا ـ
اس لیے وہ اپنے شکار کو پہلے اس طرح سے گھیرتے ہیں کہ گیس لائٹی اکثر الجھن، پریشانی اور خود پر اعتماد کرنے سے قاصر ہوتی ہے ـ اور پھر اس کی عزت نفس پر ایسا شب خون مارتے ہیں کہ وہ حق پر ہونے کے باوجود کھل کر رائے دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو کر گیس لائٹر شوہر کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن جاتی ہے ـ
گیس لائٹر سے بچاؤ
گیس لائٹنگ کا شکار فرد اپنے بچاؤ کی تدابیر اسی وقت اختیار کر سکتا ہے جب وہ اس کے بارے میں علم رکھتا ہو ـ جب مرض کی تشخیص پوری مہارت کے ساتھ کر لی جائے تو آگے کے مراحل طے کرنے قدرے آسان ہوتے ہیں ـ
پاکستان کے پدرسری سماج میں گھر کا سربراہ مرد ہے ـ لہذا اس سے مقابلہ کر کے یا اس کے مقابلے میں آ کر نفسیاتی جنگ نہیں جیتی جا سکتی نہ ہی راتوں رات اسے بدلا جا سکتا ہے ـ
یہ انتہائی سلوموشن پراسس ہے جس میں حوصلے اور سمجھداری کی ضرورت ہوتی ہے ـ
اگر خاوند مسلسل تنقید، طنز، الزامات اور تشکیک سے گزارتا رہے تو جان لیجئے کہ آپ کے مسلسل رونے اور گھبرانے سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے ـ کیونکہ یہ آپ کی ہی جنگ ہے آپ کے والدین بھائی بہن آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکتے وہ صرف آپ کو صبر کی تلقین کر سکتے ہیں جو ظاہر ہے کہ ایسے کیسز میں آسانی سے نہیں آتا، ایسے میں نہ ہی خاوند کو چھوڑ سکتے ہیں ـ کیونکہ ہمارے سماج میں یہ تصور ہی انتہائی مہلک ہے اور عموما اس میں بھی الزام فوراً عورت کے کردار پر لگا دیا جاتا ہے ـ
ہمارے پدرسری سماج میں فزیکل زیادتی یعنی جسم پر مار پیٹ کے نیل تو دکھائی دیتے ہیں لیکن ایموشنل ابیوز یعنی زہنی ٹارچر نہ دکھائی دیتا ہے نہ بآسانی اس کی وضاحت دی جا سکتی ہے اور اگر اس پر بات کی جائے تو سب سے پہلے اپنے ہی یہ جواز قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے ـ لہذا کچھ تدابیر اختیار کر کے معاملے کی سنگینی کو کم کیا جا سکتا ہے ـ
 آپ ایسے کسی معاملہ سے نبرد آزما ہیں تو سب سے پہلے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کر لیں ـ کیونکہ آپ کے ساتھ ساتھ آپ کا خاوند بھی جانتا ہے کہ آپ پر کی گئی تنقید یا الزام درست نہیں تو پھر خود کو زیادہ ہلکان مت کریں ـ


 اپنے گیس لائٹر بنے خاوند سے ڈرناختم کر دیں کیونکہ آپ جتنا خوفزدہ ہوں گی اسےاتنا ہی آپ کو ڈرانے کا موقع ملتا رہے گا ـ لہذا جب وہ آپ کے ساتھ ناپسندیدہ موضوع پر بات کرنے لگے تو چلانے کی بجائے انتہائی محتاط انداز میں ان سے مکالمہ کیجیے ـ
 بعض اوقات گیس لائٹر بنا خاوند آپ سے یقین دہانی چاہتا ہے کہ کہیں آپ انہیں چھوڑ کر نا چلی جائیں ـ اس لیے بھی وہ آپ پر  مسلط ہونے کی کوشش کرتا ہے ـ  لہذا ان کی تسکین کے لئے اظہار کرتی رہیں کہ وہ ہی آپ کی زندگی کا محور ہیں تاکہ آپ کو لے کر ان کے خدشات کم ہو سکیں ـ


   دوران گفتگو شوہر کی بات پر توجہ دیں، سنجیدہ موضوع پر تمسخر اڑانے سے گریز کریں اچھی بات کی تائید کرتے ہوئے بالکل غیر محسوس انداز میں انہیں یہ احساس دلائیں کہ صرف مثبت باتوں پر ہی داد دی جا سکتی ہے یوں ایک مثبت طرز فکر پیدا ہونے کی راہ ہموار ہو گی اور منفی طرزِ عمل زندگی سے کم سے کم ہوتا جائے گا ـ
 کوشش کریں بحث سے گریز کریں ـ لیکن جب موڈ اچھا ہو تو آپ انہیں آرام سے قائل کریں کہ فلاں وقت کہی گئی بات ہمیشہ ہرٹ کرتی ہے، تو امید ہے کہ اس کے جلد مثبت اثرات مرتب ہوں گے ـ


  گیس لائٹر کے سامنے جھجھک والا انداز آپ کا کیس کمزور کر سکتا ہے لہذا اپنے اعتماد کو مضبوط ہتھیار بنائیں ـ کیوں کہ جہاں آپ کا خود پر سے اعتماد متزلزل ہوا وہاں پر آنے والا ہر لمحہ آپکی بدترین شکست کا موجب ہو گا ـ
  اپنے معاملات میں کسی ایسے سے مدد لینے کا بھی سوچیں جس پر آپ کا مکمل اعتماد ہو اور جو پوری دیانت داری کے ساتھ آپ کے مسئلہ میں آپ کے ساتھ کھڑا ہو، تو اس سے مشورہ کر نے میں کوئی حرج نہیں، یوں دل بھی ہلکا ہوتا ہے ـ


. گھبرانے، رونے، چیخنے چلانے کی بجائے پرسکون رہ کر صورتحال کا مقابلہ کریں جذباتی مکالمے بولنے سے گریز کیجیے ـ اپنی ذات پر اٹھائے گئے سوالات پر اپنا موقف ٹھوس انداز میں پیش کیجیے اور احساس دلائیں کہ مفروضے یا اندازے پر کردار کشی کرنے سے گھبراہٹ نہیں ہوتی بلکہ ہمارا رشتہ کمزور ہوتا ہے ـ
  سب سے بڑھ کر اپنے رشتے کو وقت دیں ـ کبھی کبھی معاملات کو خوش اسلوبی سے اور کچھ وقت لے کر بھی سلجھایا جا سکتا ہے ـ
بعض تعلق ٹوٹ پھوٹ کر وقت کے ساتھ ساتھ نئے سرے سے تعمیر ہوتے ہیں اس لیے چانس دینا چاہیے ـ