یہ بلاگ ڈان نیوز میں پبلش ہو چکا ہے

تحریر... سائرہ فاروق 

منگل 30 مارچ 2021

جب لڑکی گھر سے بھاگتی ہے تو ضروری نہیں کہ وجہ صرف عشق معشوقی ہو اس کی وجوہات مختلف بھی تو ہو سکتی ہیں جسے ہمارا سماج سننا پسند ہی نہیں کرتا ـ

ہمارے ہاں حلال حرام کی تعلیم، کپڑے پہننے کی تعلیم، ناخن لمبے نہ رکھنے کی تعلیم، سر کے بال نہ کاٹنے کی تعلیم، سرخ لپ سٹک نہ لگانے کی تعلیم، سر پر جوڑا نہ بنانے کی تعلیم، ہاف سلیو نہ پہننے کی تعلیم صرف لڑکیوں کو ہی دینے پر زور ہے ـ کیا انھیں محبت سے تعلیم بھی دی ہے کبھی.... ؟ 

ہم اپنی سماجی زندگی میں تو سنتے ہی آئے ہیں لڑکی گھر سے بھاگ گئی اب سوشل میڈیا سائٹ پر بھی یہ جملہ باآسانی پڑھنے کو دستیاب ہے بلکہ اس میں ورائٹی بھی ملے گی ـ جیسے "شادی والے روز لڑکی گھر سے بھاگ گئی ـ گرلز کالج کے ہوسٹل سے لڑکی بھاگ گئی ـ لڑکی اپنے بوائے فرینڈکے ساتھ بھاگ گئی" لیکن آپ کو نہ تو حقیقی زندگی میں اور نہ ورچوئل لائف میں سننے یا پڑھنے کو ملے گا کہ لڑکا بھی گھر سے بھاگ گیا ـ

  لڑکی اکیلے تو نہیں بھاگتی اس کے ساتھ اس سماج کا کوئی لڑکا یا مرد بھی تو ہوتا ہے پھر اس کا ذکر خیر کیوں نہیں کیا جاتا؟ 

جوان لڑکی خودکشی کر لے یا لڑکی گھر سے بھاگ جائے دونوں صورتوں میں یہ ساؤنڈ عجیب لگتی ہے ـ خلق کڑوا ہونے لگتا ہے اور چہرے کے تاثرات بدلنے لگتے ہیں ـ

لیکن اس سماج میں رہتے ہوئے میری سوچ بھاگی ہوئی لڑکی کے بارے میں بدلی جب مجھے تین سال ایسی لڑکی کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہنے کا موقع ملا جہاں وہ مالک مکان تھی اور میں اس کی کرائے دار ـ

 بہاولنگر ایک گرم ترین علاقہ ہے جہاں ہماری پوسٹنگ ہوئی ـ لیکن شفٹنگ سے پہلے ہی ایک گرم ترین خبر ہمارے کانوں میں پہنچ چکی تھی کہ جو گھر ہم نے کرائے پر لیا تھا وہاں کی لڑکی گھر سے بھاگ گئی تھی لیکن پھر وہ واپس آگئی البتہ یہ خبر ہمارے لیے پریشان کن تھی ـ

سرکاری گھر کے لئے ہمارا نمبر ابھی کافی دور تھا اور اباجی کے آفس سے گھر نزدیک بھی تھا اور کرایہ بھی مناسب، لہذا اللہ کا نام لے کر ہم یہاں آگے! 

مالک مکان ایک معمر مگر چست خاتون تھیں جو ریٹائرڈ گورنمنٹ ٹیچر تھیں ـ لیکن طلاق یافتہ تھیں اور یہ طلاق بھی انہوں نے خود لی لیکن دوبارہ شادی نہیں کی گویا یہ خبر بھی ہمارے لیے کسی دھماکے سے کم نہ تھی ـ 

انہوں نے دوران ملازمت یہ گھر بنوایا، طلاق لینے کے بعد بذریعہ عدالت بیٹی کو لینے میں کامیاب ہوگئیں کیونکہ سسرال والے اس بچی کی ذمہ مے داری اٹھانا نہیں چاہتے تھے اور خاوند کو پروا نہیں تھی 

اس تفصیل سے آگاہی مالک مکان نے خود دی جنھیں میں آنٹی کہتی تھی اور باتوں باتوں میں اپنی بیٹی کے گھر سے بھاگ جانے کا واقعہ بھی خود ہی بتایا جس پر مجھے شدید حیرت ہوئی! 

 لیکن یہ انسانی نفسیات ہے کہ جس سے وہ چڑ جاتا ہے اس سے منسلک چیزوں کو بھی برداشت نہیں کرتا ـ وہ اپنے داماد کو پسند نہیں کرتی تھیں اسی وجہ سے ان کی اپنی بیٹی سے بھی نہیں بنتی تھی اکثر ان کے درمیان لڑائی ہو جاتی تو وہ ہمارے گھر آ جاتیں ـ 

لڑائی کی وجوہات بتانے کے ساتھ ساتھ اپنے داماد کے خلاف کھل کر بولتیں کہ کیسے اس نے میری بھولی بھالی بیٹی کو ورغلا کر بھگایا مگر معاشی طور پر بدترین حالات دیکھ کر بیٹی اور داماد کو اپنے گھر لے آئیں حالانکہ ان کے خاندان نے اس اقدام کی شدید مذمت کی! 

 میں آنٹی کی دریا دلی پر حیران تھی کہ جس بیٹی کی خاطر انہوں نے اپنی ساری زندگی تیاگ دی، شادی نہیں کی، اسی بیٹی نے انہیں دھوکا دے دیا، اس کے باوجود آنٹی کا اتنا بڑا ظرف تھا کہ بیٹی داماد کے معاملے میں کسی مخالفت کی پروا نہ کی اور انھیں گھر میں پناہ دی ـ ان کی بیٹی سمرا اب دو بچوں کی ماں تھی اور آنٹی کی وصیت کے مطابق اس گھر اور جائیداد کی والی وارث بھی! 

 میں جب بھی بوجوہ مجبوری ان کے گھر جاتی تو اکثر یہ نوٹ کیا کہ ان کی بیٹی سمرا اکثر کمرے میں اندھیرا کر کے بیٹھی ہوتی وہ ایسا کیوں کرتی سمجھ سے بالاتر تھا! 

ایک دن میں نے اس سے پوچھا تو ہلکے ملگجے اندھیرے میں اس کی کھوئی کھوئی سی آواز ابھری 

" باجی! اندھیرا اچھا لگتا ہے یہ سب چھپا لیتا ہے ـ"

 "کیا مطلب؟" 

" کچھ نہیں" وہ دھیرے سے مسکرائی ایسا لگا جیسے وہ نہیں اس کا درد مسکرایا ہو ـ میں نے بھی زیادہ نہیں کریدا ـ

 ایک رات ان کے گھر خوب لڑائی ہوئی اور آنٹی صبح کے وقت نکل کر اپنی بہنوں کے گھر چلی گئیں جو کہ قریب ہی میں تھا ـ

 ہمارا پانی ختم ہو گیا تو میں موٹر لگانے کے لیے نیچے گئی تو سمرا سیڑھیوں پر بیٹھی تھی ـ گھنٹوں پر سر رکھے وہ زمین پر لکیریں کھینچتے ہوئے مجھے بھیڑ میں گم کسی بچے کی طرح لگی ـ 

 "سمرا... سب خیر یت ہے، آنٹی کہاں ہیں، رات بہت شور تھا ؟" میں نے جھجھکتے ہوئے پوچھا 

 "میری اور سلیم کے درمیان لڑائی ہوگئی بس یونہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اور امی مجھے کہتی ہیں کہ اس سے طلاق لے لے ـ آپ بتائیں کہ میں اس سے طلاق لے کر کیا کروں گی؟" 

ہمارے درمیان خاموشی کا طویل وقفہ سا آیا

 "آپ کو امی نے بتایا تو ہوگا میرے بارے میں، کہ میں گھر سے بھاگ گئی تھی ایک لڑکے کے ساتھ !" اس نے لاپروا نظروں سے میری طرف دیکھا تو جانے کیوں میں ہچکچا سی گئی

 "نن، نہیں، ہاں، بس" کئی لڑکھڑاتے لفظ میرے منہ سے نکلے 

"امی نے یہ تو بتایا کہ میں گھر سے بھاگ گئی لیکن کیا انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کیوں بھاگ گئی؟ " 

وہ خلا میں گھورتے کسی نادیدہ نقطے پر نظریں جمائے پھر بولتی چلی گئی 

" سکول چھٹی ٹائم مجھے خالہ لے کر آتیں یا خالو" 

پھر ایسا ہونے لگا کہ خالو ہی اکثر آنے لگے اور مجھے گھر لانے کی بجائے آئس کریم پارلر لے جاتے یا کبھی سموسہ چاٹ کھلاتے اور میں بھی ان کے ساتھ خوش رہتی پھر میں نے محسوس کیا کہ خالو مجھے اکثر غلط جگہ ہاتھ لگاتے ہیں ـ مجھے لگتا کہ جیسے غلطی سے لگا ہو یا جان بوجھ کر ایسا ہوا، میں سمجھ نہ پائی جب سمجھ ہی نہ پائی تو بیان کیسے کرتی؟

 اپنی اس اضطراری کیفیت میں خالہ کو کہا کہ آپ آیا کریں لیکن وہ کہنے لگیں کہ "تمھیں خالو بائیک پر بآسانی لا سکتے ہیں میں کدھر بسوں کے دھکے کھاؤں گی ـ" 

 پھر دو بار خالو مجھے سنسان پارک لے گئے پہلی بار جب اس پارک میں لے کر آئے تو گارڈ نے ہمیں اندر نہ آنے دیا ـ

دوسری دفعہ میرے روکنے کے باوجود وہ مجھے دوبارہ اسی سنسان پارک لائے تو گاڑڈ کے ہاتھ میں کچھ پیسے پکڑائے تو وہ چپ کر کے وہاں سے چل دیا ـ

 لیکن میں بے چین سی ہوگی خالو مجھے درختوں کے جھنڈ کی طرف لے جانے لگے تو میں نے مزاحمت کی لیکن وہ میرے ساتھ زبردستی پر اتر آئے ـ

میں نے چیخنا چاہا تو میرا منہ بند کر دیا اور دوسرے ہاتھ سے میرے جسم کو بری طرح ٹٹولنے اور نوچنے لگے ـ

 میری چادر سر سے اتار کر دور پھینک دی اور پھر ان کے جسم کی بدبو دار بو میرے نتھنوں سے ٹکرائی اور ایک ابکائی کا احساس ہوا ان کی تیز سانسیں میرے چہرے پر پھیلتی جا رہی تھیں کہ ان کا پیر پھسلا اور وہ گر پڑے اور میں ان کی گرفت سے نکل گئی میں نے زمین سے اپنا دوپٹہ اٹھایا اور پیچھے نہ دیکھتے ہوئے بھاگنا شروع کر دیا ـ

  میں سڑک کے بیچوں بیچ کتنی دیر گرم سڑک پر بھاگتی رہی، نہیں پتہ ! لیکن گھر پہنچ کر سٹور میں خود کو بند کر کے جب لائٹ آف کی تو لگا جیسے میں محفوظ ہو گئی تب سے روشنی سے خوف آنے لگا ـ

 میں نے یہ واقعہ امی کو بتایا تو انہوں نے الٹا مجھے منہ بند رکھنے کا کہا کہ کہیں ان کی بہن کا گھر خراب نہ ہو جائے لیکن خالو کو گھر آنے سے منع نہیں کیا اس کا جب دل چاہتا ، وہ گھر آ جاتا اور میں سٹور میں اندھیرا کیے بیٹھی رہتی یہ سلسلہ چلتا رہا کہ مجھے سلیم مل گیا یہ ہمارے ہمسائے میں رہتا تھا ـ

میں نے اسے ساری بات کی اور پھر نہ جانے کیسے منہ سے نکلا کہ مجھ سے شادی کر لو اس نے اپنی والدہ کو رشتے کے لئے بھیجا تو میری والدہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ "یہ تو کمی ذات کے ہیں بھلا ہمارا تمہارا کیا جوڑ؟" 

"پھر میں نے ہی سلیم کو مجبور کیا کہ بھاگ جاتے ہیں اس کے علاوہ کوئی حل نہیں! 

اس لئے مجھے بھاگ کر شادی کرنی پڑی اگر میں ایسا نہ کرتی تو کچھ عرصے بعد امی میری شادی تو کر دیتیں لیکن شاید اس وقت تک میں اپنی عزت نہ بچا سکتی! 

شادی کے سال بعد امی مجھے گھر لے آئیں تو اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے ماموں اس گھر پر قبضہ کرنا چاہتے تھے لہذٰا امی نے یہ گھر میرے نام کر دیا... "

وہ اپنی بات مکمل کر چکی تھی اور میں َسوچ رہی تھی کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود سمرا کے نام یہ گھر لکھ کر دینا، اس کی نظیر ہمارے سماج میں کہیں نہیں ملتی ـ شاید ایسا کرکے آنٹی اپنی اس غلطی کا ازالہ کرنا چاہ رہی ہوں ـ

اس گھر میں ہمارے ڈھائی سال ہو گئے تھے جب آنٹی فوت ہو گئیں اور سمرا اپنے دو بچوں کے ساتھ اس گھر میں اب ہماری مالک مکان کی حیثیت سے رہنے لگی ـ

 وہ بی اے میں داخلہ لے چکی ہے اور زندگی میں آگے بڑھنے کا مصمم ارادہ رکھتی ہے ہماری تین سال بعد ٹرانسفر ہوگی لیکن آج بھی سمرا مجھ سے رابطے میں ہے اور اکثر کہتی ہے کہ آپ سے بات کر کے مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے ـ

لیکن میں سوچتی ہوں کہ کیا اس سماج کی ہر لڑکی سمرا کی طرح خوش نصیب ہے کہ گھر سے بھاگ کر بھی باعزت زندگی گزار سکے؟ 

کیا گھر سے بھاگنے کے بعد اسے گھر والے قبول کرتے ہیں؟ 

کتنی ہی سمرائیں کبھی نہ کبھی تو پلٹتی ہی ہوں گی تو کیا محلے والے ذو معنی اشارے بند کر دیتے ہیں؟ ایسا نہیں ہے ـ 

ہر سمرا کے نصیب میں آنٹی جیسی ماں نہیں آتی اور نہ ہی اس طرح کی لڑکیوں سے لمبی لمبی باتیں کرنے کے لئے ان کے گھر والے کسی سائرہ کو اجازت دیتے ہونگے ـ

اس سماج میں رہتے ہوئے میری سوچ بھاگی ہوئی لڑکی کے بارے میں یکسر بدلی لیکن سماج کو سوچ بدلنے کے لئے ابھی بہت وقت درکار ہے! 

آپ بے شک بھاگی ہوئی لڑکی کے ساتھ اپنے لڑکوں کا زکر نہ کریں لیکن ان کے مسائل کو تو سمجھیں ـ لڑکیاں اپنی چاردیواری شوقیہ نہیں پھلانگتی، بہت مجبوری اور گھٹن سے نکلنے کے لیے یہ راستہ تب چنتی ہیں جہاں انھیں آزادی سے سانس لینے کی اجازت نہ لینی پڑتی ہو ـ


آپ انھیں وہی عزت اور احترام دیں جو باہر کھڑا ایک اجنبی مرد دیتا ہے تو وہ کبھی اس لکیر کو پار نہیں کریں گی جسے آپ اپنی غیرت کہتے ہیں ـ