ڈسلیکسیا کا شکار بچے کند زہن نہیں ہوتے



ڈسلیکسیا کا شکار بچے کند نہیں ہوتے 
تحریر ...سائرہ فاروق
"آپ کا بچہ پڑھائی میں بہت کمزور ہے، بر وقت آگاہ اس لئے کر رہے ہیں کہ آپ اندھیرے میں نہ رہیں اور کل یہ نہ کہیں کہ ہماری وجہ سے اس کا سال ضائع ہوا ـ" پرنسپل نے دوٹوک لہجے میں کہا 

" یہ ٹھیک ہو جائے گا ـ ٹیوشن بھی لگائی ہے ـ ہم بھی کوشش کر رہے ہیں ـ پلیز آپ اسکول سے نہ نکالیں ـ" ریحان کی والدہ التجائیہ لہجے میں بولیں ـ 

"دیکھیں اس کا کسی ایک سبجیکٹ کا مسئلہ نہیں ہے، ہر مضمون میں اس کا یہی حال ہے ـ نہ یہ دلچسپی لیتا ہے نہ سبق یاد کرتا ہے نہ صحیح سے لکھ پاتا ہے ـ حالانکہ باقی بچوں کو بھی اسی طریقہ ہائے تدریس کے ذریعے پڑھایا جاتا ہے لیکن پوری کلاس میں اس بچے کی سب سے کمزور کارکردگی ہے جس کا اثر باقی بچوں پر بھی پڑھ سکتا ہے ـ اس لیے ہم مزید رسک نہیں لے سکتے ـ"
 ریحان کی والدہ دکھی دل کے ساتھ اسے گھر واپس لے آئیں اور پھر مختلف اسکولز میں ایڈمیشن کروانے کے بعد ان پر یہ معاملہ کھلا کہ بچہ نالائق ہے ـ غبی بھی ہے ـ یہ پڑھائی میں شوق نہیں رکھتا جو بچہ دلچسپی نہ لے اسے کیسے پڑھایا جا سکتا ہے؟
 یہ سارے تبصرے سننے کے بعد انہیں مشورہ بھی دیا گیا کہ وہ اسے کوئی ہنر سکھائیں تا کہ یہ کل کسی پر بوجھ نہ بنے ـ
ان کا بچہ اسکول نہیں جا سکے گا، پڑھ نہیں سکے گا یہ سوچ ہی اک ماں کے لئے ازیت ناک ہوتی ہے ـ لیکن جب انہیں اپنے بچے میں موجود بیماری ڈسلیکسیا کا علم ہوا تو انہیں افسوس ہوا کہ اتنا عرصہ وہ اپنے بچے کو نالائق کہہ کہہ کر کتنی زہنی ازیت سے گزارتے رہے ـ 

ریحان کو گھر میں پڑھاتے ہوئے کئی بار مارا بھی گیا، غصہ اور سخت سست الفاظ تو معمول کی بات تھی ـ
الغرض اندرونی اور بیرونی سارے دباؤ یہ ننھی سی جان سہتا رہا جس میں اس کا کوئی قصور نہ تھا ـ

 اب بھی ہمارے معاشرے میں والدین اور تعلیمی ادارے اپنے بچے کے انفرادی اختلافات اور ذہنی مسائل سے متعلق بنیادی معلومات سے لاعلم ہیں ـ اگر کوئی بچہ باقی طلباء کے ساتھ نہیں چل رہا تو بجائے اس کا مسئلہ سمجھنے کے، وہ اسکول سے باہر نکال دیتے ہیں ـ اور اپنی لا علمی کی وجہ سے ڈسلیکسیا کے شکار بچوں کی کوئی مدد نہیں کر پاتے ـ

 یہی وجہ ہے کہ یہ بچے گھر میں اپنے باقی بہن بھائیوں کے ساتھ اور سکول میں اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ موازنہ کئے جانے کی اذیت ناک مشقوں سے گزارے جاتے ہیں ـ

 دراصل یہ ایسی معذوری ہے جو نظر نہیں آتی اور اس کا شکار فرد اپنی پریشانی کا اظہار کرنا بھی نہیں جانتا ـ
 اگر آپ کے بچے پڑھنے لکھنے کی عمر کو پہنچ چکے ہیں لیکن انہیں پڑھائی میں دقت پیش آرہی ہے تو اپنے بچوں پر بیوقوفی اور غبی کا لیبل لگوانے سے پہلے دیکھ لیجئے کہ کہیں وہ ڈسلیکسیا کا مریض تو نہیں! 
 آئیے جانتے ہیں کہ یہ بیماری کیا ہے:
ڈسلیکسیا کیا ہے
 ماہرین کے مطابق یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے بچے کو پڑھنے لکھنے، ہجوں کو یاد رکھنے، الفاظ کی ادائیگی میں مستقل دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ـ یہ بیماری دماغ اور اس کی کارکردگی سے تعلق رکھتی ہے ـ مگر اس کا تعلق ذہانت سے نہیں ہے ـ یہ ایسی معذوری ہے جو بظاہر نظر نہیں آتی اور اس کا شکار فرد بھی اپنے اس مسئلے کا اظہار کرنے سے قاصر ہوتا ہے ـ
 ڈسلیکسیا کی علامات کیا ہیں؟

ڈسلیکسیا کی علامات ہر فرد میں مختلف ہو سکتی ہیں ـ کچھ بچے لکھنے اور ہجے کرنے میں اور ریاضی کے حروف کی پہچان کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں تو بعض بچوں کے لیے الفاظ کا غلط تلفظ اور اعداد الٹے نظر آنا ایک مستقل پریشانی بن جاتی ہے ـ
ڈسلیکسیا کا علاج 


 ڈسلیکسیا کوئی بیماری یا معذوری نہیں بلکہ ایک کیفیت ہے جس میں بچوں کو سیکھنے کے عمل میں دشواری کا سامنا رہتا ہے ـ یہ ایک توجہ طلب مسئلہ ہے ـ جو پیدائش کے فورا بعد پتہ نہیں چلتا ـ عموما اس بیماری کی تشخیص تین سے پانچ سال کی عمر کے بچوں میں ممکن ہے ـ اگر بچہ بولنے میں دشواری کا سامنا کر رہا ہے یا توجہ کا دورانیہ کم ہے تو ان دو علامات کی روشنی میں والدین کو فورا الرٹ ہو جانا چاہیے ـ اس مرحلے پر بچوں کو اس مشکل سے نکالنے میں والدین کا کردار انتہائی اہم ہے ـ
 والدین کو اپنے بچوں پر ابتدا سے ہی نظر رکھنی چاہیے اگر ان کا بچہ لفظ جوڑ توڑ اور حروف کی پہچان میں بار بار ناکام ہو رہا ہے تو پھر انہیں یہ بات چھپانی نہیں چاہیے بلکہ فوراً کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے ـ کیونکہ اس بیماری کے ماہرین ہی ایسے بچوں کو تھراپی یا گفتگو کے مراحل سے شناخت کر کے ان کی کمزوریوں کو دور کرنے کے حوالے سےبہترین مشورے دے سکتے ہیں ـ 

یہ ماہرین ڈسلیکسک بچوں کو کھیل کھیل میں رنگوں اور اشکال کی مدد سے حروف کی پہچان سکھاتے ہیں اور والدین کو رنگ برنگی تصویروں والی کہانیاں اور رسائل کی مدد سے پڑھانے کی تجاویز دیتے ہیں ـ


اس بیماری سے متاثرہ بچے کو تعلیم کا پورا حق ہے لہذا والدین سکول میں ٹیچر کو اپنے بچے کی صورتحال سے مکمل آگاہ کریں تاکہ اسکول والے ایسے بچوں کے لئے خصوصی تعلیم کا اہتمام کریں اور ٹیچرز کو ٹریننگ دیں ـ

کیونکہ ایک اچھا استاد ہی ڈسلیکسک بچوں کو اس وقت حوصلہ اور اعتماد دے سکتا ہے جب انھیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے 


 یہ بچے والدین اور اساتذہ کی مدد سے معاشرے کا انتہائی مفید اور کارآمد رکن بن سکتے ہیں یہ عام بچوں کی طرح اپنی فیلڈ میں کتنے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس کی چیدہ مثالیں امریکا کی بہترین اداکارہ جینیفر آنسٹن، ہالی ووڈ کے چوٹی کےفلم میکر اسٹیون اسپیل برگ اور لیجنڈری ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپئن محمد علی مرحوم کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں ـ جنھوں نے اس مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود پوری دنیا میں اپنا نام پیدا کیا ـ 



Post a Comment

2 Comments

  1. First time in my life I found that this is a health issue. It changed my perspective and if in future I'm going to be a teacher, I'll keep this thing in my mind.

    Thank you for this useful information 🙂

    ReplyDelete

thanks a lot