آپ کے حُسن کو چار چاند لگانے والی لڑکیاں زندگی کے جبر اور استحصال کا سامنا کر رہی ہیں
اُس روز جب میں بازار سے خریداری کے بعد گھر لوٹی تو گلی میں کُھلی سوزوکی کھڑی تھی جس میں مزدور الماری اٹھا کر رکھ رہے تھے۔ میرے قدم سست پڑگئے۔ وہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ ہاتھ میں کچھ سامان اٹھائے کھڑی ہوئی تھی۔ اس کے سُتے ہوئے چہرے سے اس کی پریشانی ہویدا تھی۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’مالک مکان نے گھر خالی کروا لیا ہے۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘ میں بھونچکا رہ گئی۔
’’کیوں کہ ان کی نظر میں جو کام میں نے شروع کیا ہے وہ گھٹیا اور گندا ہے، اس سے ان کے گھر میں نحوست پھیلے گی اور باجی (مکان مالک کی بیوی) کہہ رہی تھیں پڑوسیوں کو بھی اس پر اعتراض ہے۔‘‘ وہ بولتی چلی گئی۔ اس نے بیوٹیشن کا کورس کیا ہوا تھا اور اسی محلہ میں ایک بیوٹی پارلر کے ذریعے اپنے کام میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اب گھر میں یہ کام شروع کیا تھا۔
’’سوچا تھا گھر میں باعزت طریقے سے کچھ کما کر، چار پیسے جوڑ کر اس سال اپنے بچوں کو لازمی اسکول میں داخل کرواؤں گی۔ پچھلے سال بھی نہیں کروا سکی تھی۔ گھر کے سارے کام اور ذمہ داریاں مجھے ہی پوری کرنا ہیں، بس یہی ایک کام ہے جو گھر بیٹھے کر سکتی ہوں، تعلیم، ڈگری میرے پاس نہیں، نہ ہی کوئی خاص ڈپلومہ ہے کہ کسی ادارے میں کام کر سکوں۔‘‘
اس کی آواز ڈوب رہی تھی، مگر وہ خاموش ہونے کو تیار نہ تھی۔ ’’بس ایک یہی راستہ نظر آیا تھا، سوچا تھا بچوں کو پال لوں گی، مگر جب مالک مکان کو ہی یہ کام پسند نہیں تو کیا کرسکتی ہوں۔‘‘ میرے پاس تو اس کے کسی بھی سوال کا جواب نہ تھا۔ حالات کی ماری عورت جو اپنے چار بچوں کی کفالت گھر بیٹھ کر کرنا چاہتی تھی، لیکن سماج نے اس کے کام کو، اس کے ہنر کو، اس کے پیشے کو شرم ناک اور گھٹیا کہہ کر کتنی سفاکی سے اسے روزگار سے دور کر دیا تھا۔ خود کو نیک، پرہیزگار ثابت کر کے ایک مجبور و بے بس عورت پر اپنے گھر کے دروازے بند کرنے والے کسی کام کو برا اور ناجائز تو قرار دیتے ہیں، مگر خود اس کی روٹی روزی کا انتظام کرنے میں کون سا اپنے اختیار اور وسائل استعمال کرتے ہیں۔
بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی کوئی بھی مجبور عورت آٹھ یا دس گھنٹوں کی مصروفیت کے بعد جب اپنے گھر پہنچتی ہے کچن اس کا منتظر ہوتا ہے یا گھر کے دوسرے بہت سے کام ہوتے ہیں جو اسے کرنے پڑتے ہیں۔ ایک ورکر کو جو بیوی اور ماں بھی ہو اپنی گھر کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے کب رات گہری ہوجاتی ہے معلوم ہی نہیں ہوتا۔ ان حالات میں اگر کوئی عورت اپنے گھر پر کام کرنا چاہے تو روایت پرست معاشرہ ان کے راستے میں حائل ہو جاتا ہے، خاص طور پر جب وہ کرائے کے مکان میں رہتی ہوں تو!
ہر عورت کسی بازار اور چلتے ہوئے روڈ پر دکان کرائے پر حاصل کر کے اپنا کاروبار شروع نہیں کرسکتی۔ اس کے پیچھے کئی مسائل ہوسکتے ہیں جن سے نمٹنا ہر عورت کے بس کی بات نہیں۔ کچھ خواتین کو اپنے گھر کے مردوں کی حمایت اور مکمل مدد حاصل ہوتی ہے۔ صاحبِ ثروت عورت یا چھوٹے پیمانے پر کام شروع کرنے والی خاتون کو اپنے بھائیوں یا شوہر کی وجہ سے بیوٹی پارلر کھولنے میں مشکل پیش نہیں آتی اور یوں ان کا کام چل جاتا ہے، لیکن ایسی خواتین جن پر کنبے کی کفالت کا بوجھ ہو اور گھر میں کوئی مرد نہ ہو تو اور وہ اپنے گھر میں بیوٹیشن کا کام کرنا اس کی اجازت نہیں ملتی جس سے ان کی ہر امید دم توڑ دیتی ہے
ہمارے معاشرے میں خاص طور پر چھوٹے شہروں اور قصبوں میں اب بھی اس کام کو برا سمجھا جاتا ہے اور اکثر گلی محلے کی دکان میں کوئی بیوٹی پارلر کھولنے کی اجازت نہیں دیتا، تب ان کے پاس ایک ہی راستہ بچتا ہے اور وہ کسی بیوٹی پارلر میں تنخواہ پر کام شروع کر دیتی ہیں جہاں ہزاروں اور لاکھوں کمانے والے پارلر مالک گھنٹوں کی محنت کے عوض صرف دس ہزار پر ٹرخا دیتے ہیں۔ اگر پارلر میں رش ہے تو اس ورکر کو مقررہ وقت سے زیادہ رکنا پڑتا ہے اور محنت بھی کرنا پڑتی ہے، لیکن اضافی رقم نہیں دی جاتی۔ فیشن اور بیوٹی انڈسٹری اب پاکستان میں بھی خاصی پنپ چکی ہے اور اس کا دائرہ بڑے شہروں سے نکل کر چھوٹے علاقوں اور قصبوں تک پھیل رہا ہے۔
سجنا سنورنا عورت کی فطری خواہش اور اس کی کم زوری رہا ہے۔ موجودہ دور میں فیشن اور گلیمر کا ایسا طوفان آیا جس نے ہر طبقے کی عورت کو متاثر کیا ہے۔ بیوٹی پارلرز کی وجہ سے لڑکیاں بھی اپنے سجنے سنورنے اور رنگ روپ کے حوالے سے زیادہ جذباتی نظر آتی ہیں۔ دوسری طرف میڈیا نے فیشن اور بیوٹی انڈسٹری کو اپنے مارننگ شوز کے ذریعے ہر طبقے کی عورت کو خوب صورتی اور سولہ سنگھار کے جنون میں مبتلا کر دیا ہے۔ لڑکیوں میں اس رجحان کو دیکھتے ہوئے کاروباری طبقہ فائدہ اٹھانے کے لیے خوب تیاری سے میدان میں اترا ہوا ہے۔ نت نئی کریموں کے استعمال سے جلد کو ملائم اور رنگت کو نکھارنے، بال رنگ کر شخصیت کو الگ ہی ’لک‘ دینے کے حوالے سے تشہیری مہمات زوروں پر ہیں۔ اس کا ایک بڑا فائدہ تو کاسمیٹک مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کو ہو رہا ہے اور دوسری طرف نام ور بیوٹی پارلر اور چھوٹے پیمانے پر یہ کاروبار کرنے والی خواتین اٹھا رہی ہیں۔
شادیوں کے سیزن اور عیدین پر پارلروں میں جگہ نہیں ہوتی۔ میک اپ، مہندی، ہیئر کٹنگ اور کلر کروانے کے ساتھ لڑکیاں ان پارلروں میں موجود بیوٹیشنز سے مختلف ٹریٹمنٹ لیتی ہیں اور پیکجز کے نام پر پارلر کی مالکن اپنی جیب بھرتی چلی جاتی ہے۔ تہواروں اور شادی کے سیزن میں ہر چھوٹے بڑے کام کے دام دگنے کردیے جاتے ہیں اور اسپیشل عید پیکج کا نام دے کر خوب کمائی کی جاتی ہے۔ ان دنوں پارلر میں کام کرنے والی خواتین بارہ بارہ گھنٹے کھڑے رہ کر اپنے کنبے کے لیے شاید دو وقت کی روٹی سے کچھ بڑھ کر پا ہی لیتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کو بناؤ سنگھار سے خوب صورت بنانے کی تگ و دو میں ان ورکرز کی اپنی زندگی کتنی بدصورت ہو جاتی ہے اس کا احساس نہ تو پارلر کی مالک کو ہوتا ہے اور نہ ہی سماج ان سے ہم دردی جتاتا ہے۔
شادی کے سیزن میں پارلر مالکان ایک ہی دن میں متعدد دلہنیں تیار کرنے والی ورکرز کو کوئی اسپیشل معاوضہ نہیں دینا چاہتے۔ یہ ورکر وہی ماہانہ 10 سے 12 ہزار تنخواہ پر دلہنیں بھی تیار کرتی ہیں۔ غریب اور متوسط طبقہ کی یہ لڑکیاں جہاں اپنی مالکن کی کڑوی اور سخت باتیں سہتی ہیں وہیں اکثر خواتین کسٹمرز کا بھی ناروا سلوک برداشت کرنا پڑتا ہے۔ گھمنڈی، احساسِ برتری کا شکار عورتیں ان ورکرز کو اپنی غلام ہی سمجھ لیتی ہیں۔ اسی طرح بعض خواتین کسی مشہور اداکارہ جیسا میک اپ یا کوئی لُک چاہتی ہیں جو ان پر سوٹ نہ بھی کرتا ہو، لیکن سمجھانے کے باوجود اپنی خواہش کی تکمیل پر مصر رہتی ہیں اور جب محنت کے باوجود ایسا نہیں ہوتا تو اس کا سارا غصہ بیوٹیشن پر اتار دیتی ہیں، یہی نہیں بلکہ سیلون مالک سے اس کی شکایت بھی کرتی ہیں جس پر اپنے کسٹمر کی خوشامد کرتے ہوئے وہ اپنی ورکر کی توہین کرتی ہیں اور اسے سخت برا بھلا کہتی ہیں۔
اکثر علاقوں میں غریب گھرانے کی ان لڑکیوں کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت کی عدم دست یابی بھی ایک مسئلہ ہے۔ ٹریفک جام، بسوں اور چنگچی رکشوں کے انتظار میں ان کا بہت سا وقت برباد ہو جاتا ہے اور بعض اوقات پارلر پہنچنے میں تاخیر پر ایک بار پر ذلت اور توہین ان کا مقدر بنتی ہے۔ اکثر پارلروں میں ہفتہ وار تعطیل کا کوئی تصور نہیں ہے جب کہ شدید بیماری اور ہنگامی صورتِ حال میں بھی چھٹی نہیں دی جاتی جس کا ایسی لڑکیوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر نہایت برا اثر پڑتا ہے۔ دباؤ میں کام کرنے کی وجہ سے وہ بیماریوں کا شکار ہونے لگتی ہیں۔ چھٹی کرنے پر ان کی قلیل تنخواہ میں سے کٹوتی کرنا بھی عام ہے جس سے ان کی مشکل بڑھ جاتی ہے۔
اس کے علاوہ بعض مالکان اپنے اپر کلاس کلائنٹس کو گھروں پر تیار کرنے کی سہولت دیتے ہیں اور اس کے لیے ان خواتین ورکرز کو مجبور کیا جاتا ہے جب کہ اکثر یہ بات پہلے سے طے نہیں ہوتی۔ ایک اور مسئلہ بچوں والی خواتین کا ہے جو اول تو ایسی ملازمت کے لیے اہل ہی نہیں سمجھی جاتیں اور اگر انھیں بیوٹی پارلر میں رکھ بھی لیا جائے تو میٹرنٹی تعطیل یا کسی بچے کی بیماری کی صورت میں چند روز کی چھٹیاں دینے کے بجائے فارغ ہی کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے سماج کی بدقسمتی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کم زور، مجبور اور بے بس کو پیسے کی اور ہمت افزائی کی اشد ضرورت ہوتی ہے، بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔
بیوٹی پارلر ورکرز کا ایک اور مسئلہ واش روم جیسی بنیادی ضرورت کی عدم دست یابی ہے۔ ایک کمرے یا دکان میں بنائے گئے پالروں میں واش روم کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ اگر پالرز کسی بڑے بازار میں ہوں تو انہیں اسی ٹوائلٹ میں جانا پڑتا ہے جو مرد بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پارلر مالکان بیوٹیشن کی تربیت کے نام پر بڑی رقم بٹورتے ہیں اور طویل عرصے تک مفت کام کرواتے ہیں اور غریب اور مجبور لڑکی کا خوب استحصال کیا جاتا ہے۔ پارلر مالکان تو اپنی تنظیمیں بنا لیتے ہیں اور حکومت کی جانب سے کسی قسم کے قانون کے نفاذ اور ٹیکس وصولی پر مل کر احتجاج کرتے ہیں مگر یہ ورکرز اپنے حق کے لیے کس پلیٹ فارم سے آواز بلند کریں۔
اگر اس منافقت اور دہرے و استحصالی رویہ پر مالکان سے بات کی جائے تو ان کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ وہ ان غیرتربیت یافتہ، کم پڑھی لکھی اور بعض اوقات ان پڑھ لڑکیوں کو اپنے ہاں کام دیتی ہیں اور یوں ان کی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ انہیں ماہر بنانے کے لیے اپنے اوزار اور کاسمیٹکس کا سامان دیتی ہیں جو ایک بڑا خرچ ہے۔ جب یہ کام سیکھ جاتی ہیں تو باقاعدہ تنخواہ بھی دی جاتی ہے اور اس میں اضافہ کیا جاتا ہے جب کہ اضافی کام پر الگ سے بخشش دی جاتی ہے۔ دوسری طرف پارلر ورکر کہتی ہیں کہ پوش علاقوں اور بڑے تجارتی مراکز کے پارلر مالکان سیزن میں دس گھنٹے اور ہفتے بھر کام لینے کے باوجود تنخواہ کے نام پر دس ہزار سے زیادہ نہیں دیتے۔ اس شعبے میں کام کرنے والی لڑکیوں سے دو یا تین سال تک کام نہ چھوڑنے کا معاہدہ بھی کیا جاتا ہے۔
بعض بڑے بیوٹی پارلر جب کسی مستند ادارے کی سند یافتہ بیوٹیشن کو ملازمت دیتے ہیں تو ساتھ ہی بانڈ پر دستخط کروائے جاتے ہیں جس میں اگر کوئی لڑکی مقررہ مدت سے پہلے کام چھوڑنا چاہے تو جرمانہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ پارلر میں کام کرنے والی ایک لڑکی زرمینہ کہتی ہیں کہ ان کے خاوند پر فالج کا حملہ ہوا جس کے بعد مجبوراً بیوٹی پارلر میں کام کرنا پڑا، دن میں نو گھنٹے اور ہفتے کے چھے دن کام کے بعد ماہانہ دس ہزار ملتے ہیں جو اس منہگائی میں صرف دو وقت کی روٹی اور بلوں میں نکل جاتے ہیں۔ حالاں کہ وہ پارلر میں ایک دن میں دس پیڈی کیور اور مینی کیور کرلیتی ہیں جس کے لیے کسٹمر بارہ سو ادا کرتا ہے۔
ہیر کٹنگ کے 400 سے 600 تک بھی لیے جاتے ہیں، اس کے علاوہ بلیچ، فیشل و دیگر پیکجز کی صورت میں گاہک سے تین سے چار ہزار لیے جاتے ہیں اور اس میں ساری محنت ہماری ہوتی ہے۔ اس طرح ایک مالک کو تمام اخراجات پورے کرنے کے بعد بھی ماہانہ ہزاروں اور بعض بڑے پارلروں میں لاکھوں کی آمدنی ہوتی ہے، مگر ورکر کو صرف آٹھ سے دس ہزار یا زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار ہی ملتے ہیں جب کہ آمدورفت اور کھانے پینے کی سہولت بھی نہیں دی جاتی۔ اپنے گھر کی مالی ضروریات پوری کرنے والی یہ بیوٹی پارلر ورکر طبقاتی فرق اور امیر خواتین کو اپنے بناؤ سنگھار پر یوں پیسا لٹاتا دیکھ کر شدید احساسِ کم تری اور محرومی کا شکار بھی ہو رہی ہیں۔
وہ ان بیگمات کی عیاشیوں اور خوش حال زندگی کا اپنی ابتر زندگی سے موازنہ کرتے کرتے اندر سے مرنے لگتی ہیں۔ ان ورکرز کو اضافی کام پر الاؤنس نہ دینے، اوور ٹائم پر مجبور کرنے کے علاوہ طویل اوقاتِ کار، اجرت کی بروقت ادائیگی نہ ہونے اور ضرورت پر آسانی سے چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے بدترین حالات کا سامنا ہے، لیکن اس ضمن میں کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ انتہا تو دیکھیے کہ ایک طرف یہ لڑکیاں اس پیشے میں کم اجرت اور دیگر مشکلات کا سامنا کرتی ہیں اور دوسری طرف سماج میں ان کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا
معاشرہ انہیں قبول نہیں کرتا اور عزت اور احترام کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ دیکھا جائے تو یہ خواتین اپنی حقیقی زندگی کی کٹھنائیوں اور پیشہ ورانہ زندگی کی مشکلات سے تنہا ہی لڑ رہی ہیں اور کوئی بھی ان کے مسائل پر آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ یہ خواتین جن نامساعد حالات میں اپنے اور اپنے خاندان کے لیے روٹی کا بندوبست کرنے کی تگ و دو کر رہی ہیں اس پر ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور ان کو عزت و احترام دینے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر وہ خواتین جن کا کوئی مرد سرپرست نہیں، وہ بہت زیادہ توجہ کی مستحق ہیں۔ روایت پرست معاشرے کے زرخیز ذہنوں اور باشعور طبقے کو ان کے مسائل کا سدباب کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے ورنہ یہ سماج بھوک کے خوف سے خود کشی کرنے والیوں کو دفنانے کے لیے بھی تیار رہے
1 Comments
زندگی جہد مسلسل کی داستان ہے ۔
ReplyDeletethanks a lot