.... تحریر... سائرہ فاروق

# عورت کے لباس کو نہیں مرد کی زہنیت کو بدلیں

وزیر اعظم عمران خان نے فحاشی اور بے پردگی کے حوالے سے جو بیان دیا اس سے سوشل میڈیا پر دو طبقہ ہائے فکر کے درمیان شدید لفظی گولہ باری جاری ہے ـ ایک طبقہ جو ہمیشہ سے عورت کے لباس کو ریپ کا جواز دیتا آیا ہے اسے ایک بار پھر لباس کو ٹارگٹ کرنے کا موقع مل گیا، تو دوسری طرف وہ طبقہ جو یہ سمجھتا ہے کہ عورت کے لباس کو ریپ کی وجہ بنا دینا دراصل ریپسٹ کو سپورٹ کرنے کے مترادف ہے ـ
اس حوالے سے پہلے مکتبہ فکر کے حامل لوگوں کی رائے کے تناظر میں اپنے علاقے کی طرف نگاہ جاتی ہے تو الجھن میں اضافہ ہوتا ہے ـ
کیوں کہ خیبر پختون خواہ میں مرد و عورت کا اختلاط عام نہیں حتیٰ کہ شادی جیسی تقریبات میں بھی مرد حضرات زنان خانے میں بے دھڑک داخل نہیں ہوتے  ـ
اسی طرح بازاروں میں خواتین کھلے لباس کے ساتھ  بڑی سی چادر اوڑھے دکھائی دیتی ہیں ـ  سر عام کوئی خاتون باریک فٹنگ والے لباس میں آپ کو بازار میں نظر نہیں آئے گی ـ
اسی طرح لڑکوں کا لباس پینٹ شرٹ کی بجائے قمیض شلوار  ہے ! دراصل یہ لباس اس علاقے کا کلچر ہے جس کا احترام کیا جاتا ہے ـ
اب ایسا علاقہ جہاں عورت نا تو کسی فیکٹری میں ملازمت کرتی ہے نہ ٹائٹٹس پہن کر پارکوں میں واک کرتی ہیں ، تو پھر یہاں جنسی زیادتی کے واقعات کیوں ہو رہے ہیں؟
میرا یہ سوال ان تمام لوگوں سے ہے جو لباس کو ریپ کا جواز قرار دیے چکے ہیں ـ
ان لوگوں کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ پاکستان کے اکثریتی علاقوں میں خواتین پردہ کرتی ہیں لیکن یہ پردہ  نہ ریپسٹ کو دور بھگاتا ہے نہ ریپ زدہ ذہنیت سےبچا سکتا ہے ـ پھر یہاں کثرت سے عورت کو اپنی بے پردگی پر غور غوض کرنے کی تبلیغ تو کی جاتی ہے  لیکن مرد کی زہنیت بدلنے کی بات کیوں نہیں کی جاتی ؟
خواتین کے لباس پر  لالی پاپ، مٹھائیوں وغیرہ جیسی مثالوں کا استعمال اب متروک ہو جانا چاہیے لیکن کیا کریں اس مردانہ زہنیت کا، جو اپنے زہنوں سے یہ مثالیں 
کھرچنے کو تیار ہی نہیں .....!


دراصل عورت ان کے نزدیک ایک جنس ہے یا پراپرٹی! وہ اس سے زیادہ اسے حیثیت نہیں دیتے ـ
اگر ان کے نظریے کو درست مان لیا جائے تو نتیجے کے طور پر عورت کو سلیمانی ٹوپی پہننی پڑے گی تاکہ وہ نظر ہی نہ آئے، تو کیا پھر مرد ریپ سے باز آ جائے گا ؟
اور کیا ریپ صرف باہر نکلنے والی خواتین کا ہی ہوتا ہے؟  زیادتی کے زیادہ تر واقعات تو چاردیواری کے اندر بھی ہوتے ہیں ـ
ہمارے محرم رشتے جن میں سر فہرست چچا، خالو سوتیلا باپ جن پر ہم آنکھیں بند کر کے اعتبار کرتے ہیں انھی کے ہاتھوں دس، نو، آٹھ، تین سال کی بچیاں اور بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں ـ
اب  ان کے کونسے جسمانی اعضاء کپڑوں کے اندر سے اُبل رہے تھے کہ انھیں دیکھ کر  مرد حضرات حواس کھونے لگتے ہیں ؟
یہ تو وہ کیسز ہیں... جن کے شواہد مٹا دیے، لیکن ان کی شرح سب سے زیادہ ہے ـ
ہمارے پدرسری سماج میں سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے ـ ہم لباس کی لکیر کو مسلسل اور تسلسل کے ساتھ پیٹ رہے ہیں ـ حالانکہ لباس کے علاوہ دیگر محرکات بھی ایسے ہیں جن سے ریپ کیسز میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ـ ہمارے روزمرہ دیکھے جانے والے ڈراموں میں فحش جملے،سہاگ رات کا پوری جزئیات کے ساتھ دکھانا، عشق میں ڈوبے کرداروں کا بے شرمی کے تمام ریکارڈ توڑنا، سسر کا اپنی بہو پر نظر رکھنا، خاوند کا اپنی بیوی کی بجائے اپنی سالی سے عشق فرمانا، بلیڈ کے کمرشلز میں خواتین کا جذبات برانگیختہ کرنے والا انداز، روزمرہ کی بنیادوں پر ہمارے فیملی سسٹم میں چپکے سے داخل ہو کر زہن سازی میں مصروفِ عمل ہے ـ روزمرہ یہ سب دکھا کر ہماری ذہن سازی اس طرح سے کی گئی کہ ہمیں اب یوں انھیں دیکھنا برا بھی نہیں لگتا اس لیے مجال ہے کہ ہم انھیں موضوعِ بحث بنا کر صحت مند مکالمہ کر سکیں!
دوسری طرف انٹرنیٹ ہے جہاں سے انہیں ہر طرح کی ذہنی عیاشی انتہائی سستے پیکج کے ساتھ دستیاب ہے
بے ہودہ اور شرم و حیا سے عاری سائٹس پر ملنے والا کونٹینٹ کردار سازی، فکر و شعور پر کالی سیاہی پھیر رہا 
.  ہے ـ لیکن ہمیں یہ نظر ہی نہیں آ رہا


وزیراعظم عمران خان بیانات سے آگے بڑھ کر اختیارات کا استعمال کرکے فحاشی سمیت ہر برائی کو ریاستی طاقت کے ذریعے بین کروا سکتے ہیں ـ کیوں کہ جس طرح بڑے پلیٹ فارم کے ذریعے سے یہ دستیاب کانٹینٹ پھیلایا جا رہا. ہے وہ معاشرے میں بگاڑ کے ساتھ ساتھ ہمارا فیملی. سسٹم بھی تباہ کر رہا ہے ـ لہذا اس کے
 اثرات کو کم کرنے کے لیے عملی اقدامات ٹھوس پیمانے پر 
کرنے کی ضرورت ہے ـ
ریپ جیسی اصطلاح کو ہر بار عورت کے لباس سے جوڑنے
 کی بجائے ان تمام عوامل کو بھی مدنظر رکھیں جن سے ہمارے گھر کا ہر فرد روزمرہ کی بنیاد میں متاثر ہو رہا ہے لیکن اس سے پہلے ہمیں اپنا تعصب ختم کرنا ہو گا جو ہمیں صرف عورت کے لباس پر ہی سینہ کوبی کرنے پر آمادہ کرتا ہے ـ