کوویڈ 19 میں ڈیمنشیا کے مریض اور بچوں کا خیال کیسے رکھا  جا سکتا ہے؟ 


 


 

اگر آپ کے گھر میں ڈیمنشیا کا مریض رہتا ہے تو کوویڈ 19 میں بچوں کے ساتھ ساتھ ان کی نگہداشت کرنا اور اور گھر کو سنبھالنا خاتون خانہ کے لیے آسان نہیں ہے ـ

 ایسی صورت میں جہاں بچے اور ایسے مریض گھر میں میں ہمہ وقت موجود ہوں تو خاتون خانہ کو پل بھر کا سکون بھی میسر نہیں ہوتا ـ  بچے ہوں یا بزرگ دونوں ہی اس عمر سے تعلق رکھتے ہیں جہاں انہیں دوسرے کی بات کم ہی سمجھ آتی ہے ـ









 جہاں تک بچوں کی بات ہے تو وہ اس عمر میں ہوتے ہیں جہاں وہ غلطیاں کرتے ہیں اور بات نہیں سنتے تو، وہیں ڈیمنشیا کے مریض بزرگ اپنی بیماری کی وجہ سے دوسرے کو ہی غلط تصور کرتے رہتے ہیں ـ

 ایسی صورتحال میں خاتون خانہ اگر سمجھ دار ہو تو وہ انتہائی سمجھداری سے گھر چلاتی ہے ـ





 لیکن اگر وہ اس بیماری کو سمجھنے سے قاصر ہو تو اپنا غصہ یا تو بچوں پر نکالتی ہے یا پھر بزرگوں کے ساتھ الجھنے لگتی ہے ـ جس سے گھر کا ماحول جہالت کا نمونہ بن جاتا ہے ـ





















 پاکستان میں کرونا وائرس کی دوسری لہر کے خدشات کے پیش نظر 26 نومبر سے 11 جنوری تک تعلیمی ادارے دوبارہ سے بند کیے جا چکے ہیں ـ کوویڈ 19 پوری دنیا میں جہاں ایک خطرناک مرض کی صورت ابھرا ہے  تو وہیں پر یہ گھر کی سطح پر ایک خاتون خانہ کے لیے  آزمائش بن کر بھی اترا ہے ـ

 عورت کو بحیثیت ماں،بہو، بیوی جیسے ہر کردار میں پہلے سے دو گنا دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ گھر کا ہر فرد اس پر انحصار کرتا ہے ـ اور ہر فرد کو اس کی عمر کے تقاضوں کے مطابق  مسلسل اور مستقل بنیادوں پر ڈیل کرنا کسی بریک کے بغیر کٹھن مرحلہ بن چکا ہے اور ایسے میں وہ ان کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے چکر میں ادھ موئی ہوئی جا رہی ہے ـ






تعلیمی اداروں میں چھٹیاں ہونے کی وجہ سے بچے سارا دن فارغ ہیں ـ پہلے گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی تھیں تو بچے اور گھر کے بزرگ پارکس، گراؤنڈز ،رشتہ داروں کے ہاں اور مختلف علاقوں کی سیر و تفریح کو جاتے تھے تو ہاؤس وائف کو بھی دو گھڑی سکون کے میسر آ جاتے تھے مگر موجودہ صورتحال میں سبھی آپشنز ختم ہونے کی وجہ سے  بچے اب سارا دن گھر ہیں اور بزرگ حضرات  بچوں کے شور شرابے کی وجہ  سے خاتون خانہ کو  اپنی تنقید کا نشانہ بنائے رکھتے ہیں ـ





 بچے اور ڈیمنشیا کے بزرگ مریض دراصل وہ دو محاذ ہیں جن پر خاتون خانہ کو انتہائی عقلمندی اور معاملہ فہمی کے ساتھ اترنا پڑتا ہے ـ چنانچہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے چند تدابیر پیش کی جا رہی ہیں جنہیں اگر اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا جائے تو بچوں اور بزرگوں سے پیدا ہونے والے مسائل کو بآسانی حل کیا جا سکتا ہے  لہذا اسے درجہ بدرجہ  ڈسکس کرتے ہیں 

🏡   سب سے پہلے بچوں کے لئے لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟

🎟️ بچے سارا وقت گھر پر ہیں تو ان کے لئے ٹائم ٹیبل بنانا ازحد ضروری ہے ـ اور پھر اس ٹائم ٹیبل سے بچوں کو آگاہ کیا جانا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے ـ کیونکہ بچے بغیر کام کے جتنی دیر فارغ رہیں گے اتنا ہی پورے گھر کو سر پر اٹھائیں گے ـ




🎟️ بچوں میں نظم و ضبط پیدا کرنے کے لیے انہیں گھر کے کچھ کام تفویض کیے جائیں تاکہ ان میں احساس ذمہ داری بیدار ہو ـ

🎟️ گھر کی صفائی ستھرائی میں بچوں سے مدد لیں تاکہ وہ گندگی پھیلاتے ہوئے احساس کریں کہ صفائی آسان کام نہیں ہے ـ

🎟️ بچے کے کھانے پینے کی چیزوں کے ریپر اور پھلوں کے چھلکے نہ اٹھائیں بلکہ یہ کام بچے سے کروائیں تاکہ وہ آئندہ جگہ جگہ گندگی نہ پھیلائیں ـ





🎟️ گھر میں آن لائن کلاسز لینے کے بعد بچوں کو گھر کے بزرگوں کے پاس بیٹھنے، ان سے بات کرنے کے لیے لازماً بھیجیں ایسا نہ ہو کہ بچے پڑھائی کے بعد گیجٹس اور کارٹون کے رسیا بن کر گھر کے افراد سے لاتعلق اور صرف اپنے کمرے تک ہی محدود ہو جائیں ـ

بزرگوں کے پاس بیٹھنے سے  بچوں میں انسیت بیدار ہوگی اور ان کے مسائل کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا جس سے بچوں میں جذبہ ہمدردی پروان چڑھے گی ـ

🏡    ڈیمینشیا کے بزرگ مریضوں کے لیے کیسا لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے؟




 ڈیمنشیا کو آسان الفاظ میں بھولنے کی بیماری بھی کہتے ہیں یہ انسانی دماغ کی ایسی بیماری ہے جس میں بظاہر کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی ـ لیکن یہ اتنی خطرناک بیماری ہے کہ انسان خاموشی سے موت کی دہلیز پر پہنچ جاتا ہے ـ

چونکہ ہمارا معاشرہ ایسے مرض کو قبول ہی نہیں کرتا اس لیے ایسے مریضوں کا تمسخر پاگل کہہ کر اڑانا عام  بات سمجھی جاتی ہے ـ ڈیمنشیا کے مرض میں بدقسمتی سے ایسے مریضوں کو ڈھونگی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے ـ 




یہ مرض اتنا پاگل نہیں کرتا جتنا انسانی رویے اس مرض میں پاگل کرتے ہیں ـ خاص کر جب گھر میں اپنے ہی بچوں کے منہ سے تلخ جملوں کا سامنا کرتے ہیں تو ان کی بیماری میں شدت بڑھنے لگتی ہے ـ

اگر خاتون خانہ ان کی ضد یا ہٹ دھرمی کا مقابلہ پیار و محبت سے کریں تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ مریض ان پر بھروسا کرنے لگتا ہے ان کی بات باقی گھر والوں کی نسبت جلد مان لیتا ہے ـ

 لہذا درج ذیل باتوں کا خیال کرنے سے ایک خاتون خانہ کافی حد تک ڈیمنشیا کے مریضوں کا دل جیت سکتی ہے




🎟️ فنکشن تقریب یا کسی کسی بھی بحث و مباحثہ میں ان مریضوں کو لوگوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں کیونکہ تمسخر اڑاتے الفاظ  ذہن و قلب میں ہیجان برپا کرتے ہیں لہٰذا انہیں ہیجان سے بچائیں   ـ




🎟️ انہیں وقت پر دوا دیں کیونکہ مستقل دواؤں کا استعمال آسان نہیں مریض بھی تنگ پڑ جاتا ہے لہذا تھوڑا سا ہنسی مذاق کوئی چٹکلہ سناتے ہوئے انہیں دوائی دیں تاکہ دھیان بٹ سکے اور وہ آرام سے دوائی لے لیں ـ 

🎟️ دن میں ایک بار چھت کی کھلی فضا میں ضرور لے کر جائیں اور جسمانی ورزش کروائیں کیونکہ ورزش دماغ میں خون اور آکسیجن کے بھاؤ میں اضافہ کرکے براہ راست دماغی خلیوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے ـ





 🎟️  اس بیماری میں یاداشت تقریباً کم یا ختم ہو جاتی ہے ـ لہذا چیزیں رکھ کر بھول جانا، گھر کا رستہ بھول جانا یا گھر کے افراد کو پہچاننے سے انکار کرنا جیسے تمام مسائل سے وہ روزانہ کی بنیاد پر جنگ لڑ رہے ہوتے  ہیں ـ لہذا انھیں احساس دلائیں کہ آپ ان کے ساتھ ہیں ـ

🎟️ انھیں ڈائری کے استعمال سے روشناس کرائیں تاکہ وہ  اپنی روز مرہ کی باتوں کو لکھ کر محفوظ کر ليں یوں یہ وقت گزاری کا بہترین مصرف بھی بنے گا اور اچانک دماغ سے نکل گئی بات کا ڈائری کے ذریعے دوبارہ سے یاد آنے پر خوشی محسوس کریں گے ـ ڈائری دراصل ان کے لیے ایک بہترین سپورٹ سسٹم ہو گی ـ



🎟️ سگریٹ نوشی سے مکمل پرہیز کروائیں ـ اور گائے بگائے ڈاکٹر سے چیک اپ بھی کرواتے رہیں تاکہ اگر کوئی پیچیدگی پیدا ہونے لگے تو بروقت تشخیص ہو سکے ـ

🎟️  اگر وہ کھانا کھا کر بھول جائیں اور دوبارہ کھانے پر بضد ہوں تو انھیں آرام سے قائل کریں ـ درشت لب ولہجے سے مخاطب نہ ہوں اور ان کے معاملے میں اللہ سے ڈریں یہ سوچ کر کہ یہ ہمیشہ سے ایسے نہ تھے بلکہ اس بیماری کے آگے بے بس ہو گے ہیں ـ