عورت کو شناختی تختی نہیں مان اور پہچان چاہیے 

orat ko shanakhti takhti nahi man or pehchan chaheya





                  میرا یہ بلاگ پاکستان کی سب سے بڑی ویبسائٹ پر آج  پبلش  ہوچکا  ہے   

http://urdublogs.arynews.tv/women-in-pakistan/


 ہمارے سماج میں عورت کی شناختی تختی ، ماں، بہن، بیٹی، بیوی کی صورت میں عورت کے گلے میں پیدائش کے ساتھ ہی پہنا دی جاتی ہیں اور اسی شناخت کے ساتھ ہی قبر میں اتاری جاتی ہے

وقت کے ساتھ ساتھ شناختی تختی پر نام والد، خاوند اور بیٹے کے درج ہوتے جاتے ہیں اور اس کی حیثیت اور مقام بھی انھی کے دیےناموں کے ساتھ بدلتی رہتی ہے، پہلے بیٹی، پھر بیوی اور آخر میں ماں بن کر وہ ان کی توقعات پوری کرتے کرتے، اپنی زندگی انھی ناموں کے ساتھ جیتے جیتے کب ماہ تمام لکھتی ہے اس کی دم تورٹی سانسوں کو بھی پتہ نہیں چلتا..لیکن نہ تو اسے کبھی کریڈٹ ملتا ہے اور نہ ہی اسے تسلیم کیا جاتا ہے





حالانکہ اشرف المخلوقات میں اس کی جنس بھی شامل ہے ـ

شناخت کے اس کھیل میں عورت شناختی پٹی ضرور گلے میں پہنے مگر... اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ بحثیت عورت بھی ایک وجود رکھتی ہے

 ایک مکمل بے داغ اور اپنے پورے مقدس نام کے ساتھ اس سیارے پر سانس لینے کا حق رکھتی ہے

اور اس حق کو لینے کے لئے ضروری نہیں کہ... وہ پہلے سماجی باندی کا کردار خوش اسلوبی سے نبھائے.. گھر کا سربراہ اگر مرد ہے، تو وہ آقا نہیں ہے...اور نہ ہی گھر کوئی غلام منڈی ہے کہ جہاں اسے بے رحم کھونٹے سے باندھنے کا حکم صادر کر دیا جائے تو وہاں سے وہ مر کر ہی نکلے گی.



..

اسے خود پر چولھا پھٹنے سے بہت پہلے اپنے زندہ رہنے کے حق کا فیصلہ کرنا ہوگا...جب ایک رشتہ دوسرے فریق سے نبھ نہیں رہا تو وہ اکیلی کب تک اسے قائم رکھ سکتی ہے؟ 

ہمیشہ بیٹی کو ہی وداع کرتے وقت کیوں کہا جاتا ہے کہ ڈولی جس گھر جا رہی ہے اب اس گھر سے جنازہ ہی اٹھے گا...؟ 





 یہ بات لڑکے سے کیوں نہیں کی جاتی کہ تم بھی رشتہ نبھانہ ورنہ ہمیں منہ نہ دکھانا

  مرد کو کیوں نہیں کہا جاتا کہ شادی تمہاری بھی ہوئی ہے لہذا تم بھی نبھاؤ ورنہ ہماری ناک سماج میں کٹ جائے گی؟ 




اسی طرح ایک بیوہ عورت تیز رنگ نہیں پہن سکتی،تو سماج کی آنکھوں میں چھبن کیوں بڑھ جاتی ہے؟ 

 وہ کھل کر ہنس نہیں سکتی کیونکہ وہ بیوہ ہے اسے ہر وقت منہ بسورنا چاہیے، آہ و فغاں کرنی چاہیے مگر مسکرانا، خوش رہنا حرام ہےاس پر



.. 


کیوں عورت کی خوشی کا تعلق بھی خاوند کی زندگی سے جڑا ہے...؟ کیا انفرادی طور پر اس کے بغیر اپنے لیے مسکرا نہیں    سکتی؟ اپنے معاملات اکیلے چلا نہیں سکتی؟ 







 وہ اپنے یا اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لیے جاب نہیں کر سکتی کیونکہ یہ سب اس کے بھائیوں کو پسند نہیں


 دوسروں کی پسند ناپسند میں ڈھلتی بیوہ عورت کی خودکشی تو. قبول کر لی جاتی ہے مگر اسے جینے کا حق نہیں دیا جاتا 









اسے معاشرے میں قائم ٹیبوز پر بات کرنے کا حق نہیں... کیا بیوہ ہو جانے سے زندگی رک جاتی ہے؟ 


کیا خاوند کے مر جانے کے بعد عورت کا اپنا وجود بیکار ہوجاتا ہے؟ 


بحیثیت عورت اپنی شناخت اپنے نام کے ساتھ جینے میں آخر حرج کیا ہے؟ 


 عورت کی شناخت مرد سے نہیں ہے بلکہ عورت بطور انسان اپنی. مکمل شناخت رکھتی ہے 





زندہ رہنے اور جینے کے مکمل حق کے ساتھ عورت کی اپنی شناخت مرد کی شناخت کی طرح ہی اہم ہیں اور بنیادی انسانی حقوق میں. اس کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا مرد کا  





ایک عورت جو ہے جیسی ہے، کیا پسند ہے کیا نہیں

کیا اس کے لئے ٹھیک ہےاس کا تعین کرنے کا مکمل اختیار ایک عورت کے ہاتھ میں ہونا چاہیے ـ

 لوگ کیا کہیں گے جیسی سوچ سے نکل کر ایک عورت کیا سوچ رکھتی ہے اسے بحیثیت انسان سوچنے دیں اپنی مکمل پہچان کے. ساتھ اور پورے مان کے ساتھ!