انسانی تاریخ کا 113 سالہ واقعہ جو اب تک معمہ ہے 

 دوستو آج میں آپ کو زمین کے ان پراسرار رازوں.... کےبارے میں بتاؤں گی، کہ جن میں سے کئی راز ماہرین کے لیے معمہ بن گے، انھی میں سے ایک راز 113 سالہ پرانا واقعہ ہے جس کا کھوج ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی ماہرین نہیں لگا سکے... اس واقعے کو جاننے کے لیے بلاگ پڑھیے... جس میں آپ جانیں گے کہ 113 سال پرانا انسانی تاریخ کا یہ واقعہ، جسے سائنسدان آج بھی معلوم نہیں کر سکے... کہ آخر یہ ہوا کیسے؟

 30 جون 1908 کو جب سائبریا کے علاقے ایونکی کے رہائشیوں نے آسمان پر نیلے رنگ کی روشنی دیکھی، اور اس حرکت کرتی روشنی کو رپورٹ کیا،  بقول ان کے، یہ روشنی سورج جتنی تیز تھی۔تقریباً 10 منٹ بعد ہی ایک اور انہونی ہوئی، اچانک ایک انتہائی گرج دار آواز سنائی دی کہ کانوں کے پردے پھٹ گے اور دل دہل گے، یہ آواز مشرق سے شمال کی جانب سفر کررہی تھی اور اس کے بعد ایک شاک ویو نے گاؤں والوں کو ڈرا کر رکھ دیا اور اسی اثنا میں تمام گھروں کی کھڑکیاں بھی ٹوٹ گئیں۔اس دھماکے کی آواز، اور اس سے پیدا ہونے والی لہریں، یور ایشیا بلکہ برطانیہ تک زلزلہ پیما مراکز نے ریکارڈ کیں، مگر ایونکی کے رہائشیوں نے درحقیقت کسی قسم کے دھماکے کو نہیں دیکھا، ایشیا اور یورپ کے آسمان میں اس دھماکے کے بعد کئی دن تک عجیب و غریب روشنی دیکھی جاتی رہی، جس کے نتیجے میں مختلف ممالک میں ماحولیاتی دباؤ میں تبدیلیاں بھی نوٹ کی گئیں ۔اگرچہ دھماکا کس چیز کا تھا، کیسے ہوا، یہ تو پتہ نہ چل سکا، مگر مشرقی سائبریا میں اس مقام کو ضرور دریافت کر لیا گیا، یہاں 800 اسکوائر میل رقبے پر پھیلا جنگل یا 8 کروڑ درخت مکمل طور پر غائب ہوگئے 

اور ایسا کس چیز سے ہوا، یہ وجہ بھی سمجھ نہیں آسکی۔ سائنسدانوں نے شروع میں اس دھماکے کی یہ وضاحت دی کہ یہ سب اس زوردار دھماکے کی وجہ سے ہوا، مگر اس مقام پر کبھی کوئی گڑھا دریافت نہیں ہوا، جنگل کا تقریباً رقبہ درختوں سے مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دھماکے کی طاقت 10 سے 15 ٹن تھی۔ ریسرچرز نے یہ بات جاننے کی کوشش کی کہ اس دھماکے کی کیا وجوہات تھیں؟ کیونکہ اتنی طاقت کے ساتھ ہونے والے دھماکے سے ایک بڑا شہر تباہ ہوسکتا ہے۔ مگر اس کے بعد کبھی ایسا دھماکا نہیں ہوا اور اسی بات نے ماہرین کو الجھا دیا، خوش قسمتی سے یہ علاقہ غیر آباد تھا، ورنہ بہت زیادہ انسانی جانیں اس دھماکے کی نذر ہو جاتیں، دھماکے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی حرارت کو قصبے کے رہائشیوں نے محسوس ضرور کیا، ایک عینی شاہدین کے مطابق، 'آسمان 2 حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا 

اور جنگل کے اوپر آسمان کا شمالی حصہ آگ سے بھرا ہوا لگتا تھا'۔ اس کا مزید کہنا تھا : آسمان میں ایک دھماکا ہوا اور بہت بڑا کریش ہوا، ایسا کریش جس کو سن کر لگتا تھا کہ آسمان سے پتھر برس رہے ہوں یا گنوں کی فائرنگ ہورہی ہو'۔اس دھماکے کو ٹونگوسکا ایونٹ کا نام دیا گیا 

یہ بھی پڑھیے:ٹائیٹینک آخر کیوں ڈوبا؟ 

https://socialchange786.blogspot.com/2023/01/blog-post_15.html

جو انسانی تاریخ کا سب سے طاقتور ریکارڈڈ دھماکا بھی ہے، جس سے خارج ہونے والی حرارت ہیروشیما میں گرائے جانے والے ایٹم بم سے 185 گنا زیادہ تھی۔مگر ایک صدی سے بھی زائد عرصے گزر جانے کے بعد بھی سائنسدان الجھتے رہے ، کہ آخر اس جگہ ہوا کیا تھا؟ کچھ سائنسدانوں کے نزدیک یہاں اک سیارچہ گرا، اور اسی کی وجہ سے دھماکا ہوا، مگر اتنے بڑے سیارچے کی باقیات کو تو موجود ہونا چاہیے، لیکن یہاں سیارچے کا کوئی ہلکا سا زرہ بھی کہیں دیکھنے کو نہ ملا۔ سو یہ تھیوری تو اسی وقت رد کر دی گئی، کچھ حلقوں کے خیال میں یہ آتش فشاں پھٹنے یا کان کنی کا کوئی حادثہ تھا مگر اس کے بھی شواہد نہیں مل سکے۔

سربیا کا یہ خطہ جہاں موجود ہے وہاں کا موسم انتہائی سخت ہے ، یہاں سردیوں کا موسم بہت طویل ہوتا ہے، جبکہ گرمی کا موسم انتہائی مختصر... جس کے باعث سطح میں ایسی تبدیلیاں آئیں کہ جس کی وجہ سے یہاں رہنا تقریباً ناممکن ہے بلکہ یہاں تک جانا بھی آسان نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ جب دھماکا ہوا تو کسی کو بھی تحقیقات کے لیے وہاں جانے نہیں دیا گیا کیونکہ رشین اتھارٹیز کو مختلف خدشات تھے۔ روس کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے 1927 میں آخرکار اس جگہ کا دورہ کیا 

اور اس نتیجے پر پہنچے کہ دھماکے کے لگ بھگ 20 سال بعد بھی وہاں ہونے والا نقصان ویسے کا ویسا ہی تھا۔اس ٹیم کے مطابق، ایک خلائی جسم فضا میں پھٹا جس سے یہ نقصان ہوا، مگر اس کے نتیجے میں کوئی گڑھا یا خلائی ذرات ملنے چاہیے تھے جو نہ مل سکے، تو اس پر ٹیم نے یہ وضاحت دی کہ وہاں کی دلدلی زمین کی وجہ سے اسے کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا جبکہ تمام تر ملبہ اس کے اندر دفن ہوگیا، مگر دلدلی گہرائی سے کچھ بھی دریافت نہیں ہوسکا اور کچھ دہائیوں بعد روسی سائنسدانوں نے کہا کہ یہ کوئی شہاب ثاقب نہیں بلکہ دم دار ستارہ تھا، جو سخت چٹانوں پر نہیں بلکہ برف پر مبنی ہوتا ہے۔زمین کے ماحول پر ہونے والی تباہی کے بعد برف بخارات بن کر اڑ گئی مگر یہ خیال بھی درست ثابت نہیں ہوسکا۔1958 میں محققین نے اس مقام سے سلیکیٹ اور مقناطیسی پتھر کے ننھے ذرات کو دریافت کیا اور مزید تحقیق سے ثابت ہوا کہ وہاں کی سطح میں نکل کی مقدار زیادہ ہے، جو شہاب ثابت کا ایک جانا مانا عنصر ہے۔مگر بحث یہاں ختم نہیں ہوئی پھر 1973 میں ایک تحقیق ہوئی اور کہا گیا کہ ایک بلیک ہول کا زمین سے ٹکراؤ اس دھماکے کا نتیجہ بنی... مگر اس کی تردید پر مبنی تحقیق بھی فوری طور پر سامنے آگئی۔2014 میں یوکرین کے ماہرین کی ایک ٹیم نے دھماکے کے مقام سے 1978 میں اکٹھے کیے جانے والے چٹانی نمونوں کا تجزیہ کیا اور انہوں نے 1908 میں کاربن منرل lonsdaleite کے آثار دریافت کیے، جو اس وقت تشکیل پاتا ہے 

جب کوئی شہاب ثابت زمین سے ٹکراتا ہے۔مگر یہ بھی واضح نتیجہ نہیں تھا، اور پھر 2020 میں ایک تحقیق  میں خیال ظاہر کیا گیا کہ ایک بڑا شہاب ثاقب زمین کے اتنے قریب آگیا کہ بہت بڑا شاک ویو پیدا ہوا، مگر ٹوٹے بغیر زمین کے پاس سے گزر گیا، اور اس کے نتیجے میں شاک ویو کا اثر اس خطے میں دیکھنے پر آیا۔تو یہ واقعہ... آج بھی حل نہ ہو سکا اور اب تک انسانی تاریخ کے چند پراسرار ترین واقعات میں سے ایک ہے اور اس پر آج بھی تحقیقی کام جاری ہے اور آنے والے برسوں میں اس حوالے سے مزید تھیوریز بھی سامنے آتی رہیں گی۔