ٹائٹینک آخر کیوں ڈوبا؟ 

آر ایم ایس ٹائٹینک، جو مشہور برطانوی مسافر بحری جہاز تھا اپنے پہلے ہی سفر کے دوران ایک برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوب گیا تھا۔یہ سب جاننے کے لیے بلاگ پڑھیے

دس اپریل 1912 کو ایک جہاز اپنے برطانوی شہر ساﺅتھیمپٹن سے امریکہ کے شہر نیویارک کے لیے روانہ ہوا۔

 جہاز میں عملے کے 892 افراد سمیت 3327 مسافر سوار تھے۔  دنیا کے سب سے بڑے اور سب سے پرتعیش جہاز میں سفر کرتے ہوئے ابتدائی چار دن انتہائی پرمسرت تھے، جہاز مالکان اور مسافر سب   ہی اپنی اس خوش نصیبی پر شاداں تھے کہ وہ انھیں جہاز کے پہلے مسافر ہونے کا شرف ملا ہے ٹائیٹینک بنانے والی کمپنی کو اس کی مضبوطی پر اتنا غرور تھا کہ اپنے اشتہاری تعارف میں لکھا گیا کہ" یہ جہاز کبھی نہیں ڈوب سکتا"

اسی وجہ سے انہوں نے لائف بوٹس اور کشتیوں کی زیادہ تعداد میں نہیں رکھی، اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ بلاضرورت اتنی احتیاط فضول ہے، وائٹ اسٹار لائن کے اہتمام میں بننے والے دنیا کے اس سب سے بڑے جہاز کی لمبائی882 فٹ نو انچ اور چوڑائی 92 فٹ تھی جبکہ اس جہاز کی اونچائی 175 فٹ بتائی جاتی ہے۔ اس جہاز کی تعمیر کا حکم نامہ 17 ستمبر 1908 کو جاری ہوا تھا اور اس کی تعمیر31 مارچ 1909 کو شروع ہوئی تھی۔ 31 مئی 1911 کو اسے پانی میں اتارا گیا اور دو اپریل 1912 کو اس کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ٹائی ٹینک کا کپتان ایڈورڈ جان سمتھ انتہائی تجربہ کار کپتان تھے، انہوں نے  کم سے کم مدت میں بحر اوقیانوس کو عبور کرنے کا عالمی ریکارڈ بنانے کے چکر میں  وایٹ اسٹار لائن کی تمام ہدایات کو پس پشت ڈال دیا.....  چنانچہ انہوں نے جہاز کو اسپیڈ سے چلانا شروع کر دیا اور سمندر میں موجود ایک اور جہاز جس کی طرف سے بار بار انتباہی سگنلز بھیجے گے کہ سمندر میں بڑے برفانی تودے (آئس برگ) موجود ہیں۔ لیکن ٹائیٹینک کے عملے نے اس پر توجہ نہ دی ۔

14 اپریل 1912 کی رات دھند میں لپٹی ہوئی تھی  بادلوں سے ڈھکے آسمان پر چاند کی روشنی بھی ن تھی، اندھیرا معمول سے زیادہ لگ رہا تھا اسی وجہ سے دور تک دیکھنا یا جلد خطرے کو بھانپنا ممکن نہ تھا

یہ بھی پڑھیے:

https://socialchange786.blogspot.com/2023/01/blog-post.html

بدقسمتی دیکھیے کہ، جہاز کے عملے کے پاس دوربین بھی موجود نہیں تھی جب اچانک ایک آئس برگ کو اس جہاز کے قریب ہوتے دیکھا گیا... کپتان کے نوٹس میں فوراً یہ صورتحال لائی گئی  جہاز کا انجن بند ہونے کے باوجود  جہاز اپنی اسپیڈ کی وجہ سے جلد نہ رک سکا اور رات 11 بج کر 40 منٹ پر ایک آئس برگ سے ٹکرا گیا۔

ٹائی ٹینک کے حصوں کو آپس میں جوڑنے کے لیے جن ریبٹس کو استعمال کیا گیا تھاناقص میٹریل سے بنائے گئے تھے۔ جہاز کے آئس برگ سے ٹکراتے ہی یہ ریبٹس ٹوٹ گئے اور سمندر کا شوریدہ پانی تیزی سے جہاز میں داخل ہو گیا۔

https://socialchange786.blogspot.com/2023/01/36.html

جہاز کا آئس برگ کے ساتھ زوردار ٹکراؤ کے نتیجے میں جہاز رک گیا اور جب اسی حالت میں کافی دیر ہوگئی تو مسافروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔ 

 جہاز کے نچلے حصے میں حفاظتی دیواریں نہیں بنائی گئی تھیں اس لیے تھوڑی ہی دیر میں پانی پورے جہاز میں پھیل گیا  اور آہستہ آہستہ ڈوبنے والا یہ جہاز صرف تین گھنٹے کے اندر دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا 

جہاز کو صرف 20 لائف بوٹس  اور چند کشتیاں دے کر  مزید دینے سے انکار کر دیا کہ جب یہ جہاز ڈوب ہی نہیں سکتا تو غیرضروری احتیاط کی قطعاً ضرورت نہیں 

چنانچہ ان چند لائف بوٹس کی مدد سے صرف 755 مسافر اپنی جان بچا سکے اور باقی مسافر جن کی تعداد 1490 سے 1635 کے درمیان بتائی جاتی ہے، ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ 

 جہاز کا مالک بروس اسمے جو خواتین اور بچوں کو ڈوبتے جہاز میں چھوڑ کر ایک کشتی کے ذریعے جان بچانے میں کامیاب رہا مگر اپنی اس بے حسی پر تاحیات عوامی نفرت کا نشانہ بنا ۔ اسے ’ٹائی ٹینک کا بزدل‘ کہا جاتا تھا۔ اس کا انتقال 1937 میں ہوا۔

البتہ جہاز کے کپتان ایڈورڈ جان سمتھ وہ آخری آدمی تھا جو خواتینِ اور بچوں کو بچانے کی کوشش آخری دم تک کرتا رہا اور آخر میں چھلانگ لگائی لیکن خود کو بچا نہ سکا

  کپتان کے اس عظیم جذبے کی یاد میں  اس کا مجسمہ بنا کر برطانیہ کے بیکن پارک میں  نصب کیا گیا ہے۔ 

کہا جاتا ہے کہ، ٹائی ٹینک سے کچھ ہی فاصلے پر تین بحری جہاز موجود تھے جن کے نام فرینکفرٹ، کارپیتھیا اور ماﺅنٹ ٹیمپل تھے مگر ان جہازوں نے ٹائی ٹینک کے کسی سگنل پر فوری توجہ نہیں دی۔

صبح کے وقت کارپیتھیا ٹائی ٹینک تک پہنچنے میں کامیاب ہوا، مگر اس وقت تک ٹائی ٹینک کا کہیں وجود نہ تھا ۔ کارپیتھیا کا عملہ صرف لائف بوٹس میں سوار مسافروں اور عملے کے ارکان کی جان بچانے میں کامیاب ہو سکا۔

اگر دنیا میں ہونے والے بڑے بحری حادثوں کی فہرست دیکھی جائے تو ٹائٹینک کا نمبر کہیں نیچے آتا ہے، اور دنیا میں اس سے بڑے بحری حادثے ہوئے ہیں جن میں کہیں زیادہ لوگ غرق ہوئے مگر ٹائٹینک کو جو شہرت ملی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی

اس واقعے کے 110 سال گزر جانے کے باوجود ٹائٹینک پر فلمیں بنائی جا رہی ہیں۔ لیکن 1997 میں بنائی جانے والی فلم ٹائی ٹینک کو بے پناہ شہرت ملی، 

دیکھا جائے تو ٹائیٹینک ڈوب کر بھی نہیں ڈوبا یہ آج بھی لوگوں کے زہنوں میں زندہ ہے