کیا ایک روز کی پابندی کافی ہے؟


سائرہ فاروق


 فروری 2018 کو سجاگ کی ویبسائٹ پر پبلش ہو چکا ہے



ہمارے ہاں فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی ویلنٹائن کے خلاف اور حق میں بحث دیکھنے میں آتی ہے۔ لوگ اسے غیر اسلامی تہوار قرار دیتے ہیں۔


مذہب اور سماج اقدار کو آپس میں گڈ مڈ کرنا بہت بڑی غلط فہمی اور شعوری بے ایمانی ہے۔ عام لوگ مذہب اور سماج میں فرق نہ کرنے اور نہ سمجھنے کی وجہ سے کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں۔ شاید کچھ حلقے چاہتے بھی یہی ہیں۔


رنگین یا شوخ و چنچل شلوار قمیض، دھوتی کرتہ یا دوپٹہ کوئی مذہبی لباس نہیں بلکہ یہ ثقافتی پہناوے ہیں جو  پاکستان اور بھارت میں مسلم ، ہندو، مسیحی، بدھ اور سکھ مذاہب کے لوگ پہنتے ہیں۔


اسی طرح موسیقی، گیت ، رہن سہن، شادی بیاہ کی رسوم  وغیرہ مذہبی نہیں بلکہ علاقائی رواج ہیں۔


بد قسمتی سے کچھ  لوگ عرب ثقافت کو اسلامی ثقافت خیال کرکے اسے اپنانے کی خود ساختہ اور بے ڈھنگی  کوششیں  کرتے ہیں جس سے نہ تو تیتر رہتے ہیں نہ ہی بٹیر۔


دنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے۔ عالمی تہوار، روایات اور مختلف ثقافتیں بہت آہستگی سے ہمارے قومی مزاج میں اپنائی جانے لگی ہیں۔ اب فادر ڈے، مدر ڈے، ویلنٹائن ڈے  پوری دنیا میں منایا جاتا ہے لیکن ویلنٹائن ڈے شدت پسندی کی نظر ہو گیا ہے۔


بدقسمتی سے ہم فکر کے اس مقام پر ہیں کہ جہاں مغرب سے آنے والی ہر اصطلاح، روایت یا تہوار کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔


یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں محبت کے مغربی انداز اور آپسی تعلقات کے سر عام اظہار اور اس کے طریقے قابل قبول نہیں۔ یہ ہماری سماجی اقدار ہیں جو ہمیں عزیز ہیں تاہم کسی تہوار کو مذہب سے جوڑنا غلط ہے۔


میرے بہت سے جاننے والے ویلنٹائن ڈے پر اپنے اہل خانہ کو پھول دیتے ہیں اور ایک ساتھ وقت گذارتے ہیں۔ کچھ چاہنے والے ایک دوسرے کو پھول اور چاکلیٹ دیتے ہیں، بھلا اس اقدام سے آپ کے مذہبی عقائد کیونکر متاثر ہوتے ہیں؟


برصغیر میں عشق و محبت سے منسوب داستانیں، شاعری، میلے ٹھیلوں پر محبوب سے ملاقات کی روداد ہمارے ادب میں موجود ہے۔ اس پر بے تحاشا لکھا بھی گیا پڑھا بھی گیا اور پسند بھی کیا گیا


اگر رومینٹک گانے بن سکتے ہیں، شادی بیاہ پر گھر کے اندر کی تقاریب میں لڑکیاں بالیاں اور لڑکے مخلوط محفل میں یہ گانے گا سکتے ہیں، انہی گانوں پر مقابلے کیے جا سکتے ہیں، عشق و محبت میں ڈوبی فلمیں اور ڈرامے بن سکتے ہیں،عشقیہ گانوں کے ٹاپ ٹین چارٹ، میوزک چارٹ کے پروگرام چلائے جا سکتے ہیں اور گھروں میں عام دیکھے اور پسند کیے جا سکتے ہیں ان پر سرعام ہم بات بھی کر سکتے ہیں تو کیا آپ کو لفظ ’ویلنٹائن‘ سے چڑ ہے؟


اگر بات اقدار کے منافی کی ہے تو صرف ویلنٹائن ہی کیوں؟ باقی یہ سب تہواروں پر بھی پابندی لگا دیں۔


جیسا کہ میں نے ابھی کہا، خرافات کا تعلق کسی تہوار سے نہیں بلکہ ہماری سوچ  اور اسے منانے کے طریقوں سے ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی موقع پر ہو سکتی ہیں۔


پاکستان میں عیدین اور کرسمس کے مواقع پر کچی یا زہریلی شراب پینے کی وجہ سے ہلاکتیں عام ہیں اور اعداد و شمار کے مطابق صرف سنہ 2016 ء کے دوران جہاں ایسے واقعات میں 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے وہیں تشویش ناک حالت میں ہسپتال لے جائے جانے والے افراد کی تعداد بھی 100 سے زیادہ ہی تھی۔


2017ء میں بھی ملک کے کئی شہروں ٹنڈو محمد خان، ٹوبہ ٹیک سنگھ، یوحنا آباد لاہور، لیاقت آباد، پشاور اور جہلم میں ایسے کئی واقعات ہوئے جن میں سیکڑوں جانیں چلی گئیں۔


تو کیا عید، بکرا عید اور کرسمس  کے تہواروں پر پابندی لگا دی جائے؟


ایک اور سوال بھی ہے کہ کیا ’خرافات‘ صرف 14 فروری کو ہوتی ہیں باقی 364 روز شیطان سویا رہتا ہے؟


ریاست کا کام تمام شہریوں کے حقوق کا دفاع کرنا اور انہیں ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہے، تہواروں پر پابندی لگانا نہیں۔ مگر یہاں نفرت کا پرچار کرنے اور دوسروں کو کافر کہہ کر جان سے مارنے والے تو آزاد ہیں لیکن محبت جیسے لطیف جذبے کو فروغ دینے والوں کو بزور طاقت روکا جاتا ہے۔


گلوبلائزیشن کے اس دور میں  مختلف تہذیبوں  کے رسم و رواج روایات ایک دوسرے میں شامل ہو کر نئی نئی صورتیں بنا رہے ہیں۔ اب مشرق اور مغرب کی معروف معنوں میں تقسیم بس نام کی ہے۔


آپ کسی اجنبی سے نہ تو پھول اور چاکلیٹ وصول کر سکتے ہیں اور نہ ہی دے سکتے ہیں۔ تو وہ جو سال کے 364  دن روز ملتے ہیں، ان پر ایک روز کی پابندی لگا کر آپ کیا حاصل کر لیں گے؟


ویلنٹائن ہو یا کوئی اور ڈے، اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ اپنے بچوں کے حق پسندیدگی کو رد کرنے کی بجائے اسے قبول کر لیں اور اگر ممکن نہیں تو انہیں دلائل سے سمجھائیں۔


بصورت دیگر وہ یہ حق آپ کے رات کو سو جانے کے بعد بھی حاصل کر سکتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ ویلنٹائن ڈے ہو۔


وہ 14 فروری کو نہ سہی، 15 فروری کو، 20 مارچ، 10 اپریل یا اور کسی روز کسی کونے کھدرے میں سماجی روایات کی دھجیاں اڑا کر بھی وصل یاب ہو سکتے ہیں۔


مغربی ڈے پر ’مغربی اقدار‘ کے چولے نہیں پہننے، مت پہنیں، مگر  سوچنے کی بات یہ ہے کہ صرف ایک دن پر قدغن لگا کر باقی کے دن آپ اپنی اولاد کو کیسے روکیں گے؟