کیا آپ بھی بچوں کی یک طرفہ ’کہانی‘ پر یقین کرلیتی ہیں۔۔۔؟


 

کیا آپ بھی بچوں کی یک طرفہ ’کہانی‘ پر یقین کرلیتی ہیں۔۔۔؟

تحریر... سائرہ فاروق. 



کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اکثر آپ کے بچے اسکول سے اپنے ہم جماعت کی شکایات تو لے کر گھر پہنچتے ہیں، لیکن  وہ کبھی اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتے۔۔۔ وہ آپ کو یہ تو بتاتے ہیں کہ آج فلاں نے اسے تنگ کیا، اسکیل مارا یا اس کے ساتھ کوئی بدتمیزی کی، لیکن اس کے ساتھ والدین بھی یہ نہیں پوچھتے کہ اس نے آخر آپ کو کیوں مارا۔۔۔ آپ کی اس کے ساتھ آخر بات ہوئی کیا تھی۔۔۔؟

دراصل ہم بطور والدین یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ہمارا بچہ جھوٹ بول ہی نہیں سکتا، نہ ہی غلطی کر سکتا ہے۔۔۔ ہم اس مرحلے پر یہ سوچنا گوارا ہی نہیں کرتے کہ یہ جو آئے روز صرف دوسروں ہی کی شکایت لے کر گھر آتا ہے، کیا کسی اور کو بھی اس سے شکایت ہے۔۔۔؟

  بہت ممکن ہے کہ دوسرے بچے کسی ردعمل میں اسے تنگ کرتے ہوں، لیکن وہ گھر آکر صرف دوسروں کی بات تو بتاتا ہے لیکن اپنی شرارتوں کو دانستہ پوشیدہ رکھتا ہو ۔۔۔!

اس کے علاوہ اسے یہ یقین بھی ہوتا ہے کہ اس کی امی یا ابو اس کی یک طرفہ کہانیاں سن کر کبھی یہ کھوج لگانے کی کوشش نہیں کریں گے کہ کہیں اس نے بھی تو کچھ نہیں کیا تھا۔۔۔؟

دراصل والدین اپنے بچوں کی یک طرفہ باتیں سن کر فوراً یقین کرنے اور اسے مکمل حقیقت جان کر ردعمل دینے کے اس قدر عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ اس کے علاوہ ہمیں کچھ سوجھتا بھی نہیں اور یوں بچے کی جذباتی نشوونما پر اس چھاپ کا اثر گہرا ہونے لگتا ہے کہ ’’وہ ہمیشہ درست ہوتا ہے۔۔۔!‘‘

اس تاثر کو پختہ کرنے کے لیے جب والدین بچے کی کسی شکایت پر ڈائری پر نوٹس لکھ کر بھیجتے ہیں یا پھر اگلے دن خود اسکول پہنچ جاتے ہیں اور پورا معاملہ کھلنے پر جب یہ پتا چلتا ہے کہ زیادہ قصور تو آپ کے اپنے بچے ہی کا ہے، تو آپ کو اپنی جلد بازی کے ساتھ ساتھ شرمندگی کا احساس بھی ہونے لگتا ہےـ

کم عمری سے ہی اگر ایسے رویے کی پرورش کے لیے گھر سے سازگار ماحول ملتا رہے، تو بچے کے اندر منفی صلاحیتوں کو 
پختگی ملنا شروع  ہو جاتی ہے۔۔۔




اگر پانچ سال کی عمر میں بچے کو اچھے اسکول بھیجنے کے لیے آپ جتن کر سکتے ہیں، تو اتنی ہی فکر مندی بچے کی جذباتی اور سماجی تعلیم کے لیے بھی ہونی چاہیے تاکہ بچے  کی شخصیت عدم توازن کا شکار نہ ہو ۔۔۔

لہٰذا والدین اور تعلیمی اداروں کو مل کر ایسی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں کہ جن کی وجہ سے بچے کے اندر پیدا ہونے والے منفی خیالات کا تدارک ممکن ہو۔۔۔

گھر میں والدین کا کردار

بچے کو گھر میں زیادہ سے زیادہ توجہ والدین ہی دے سکتے ہیں، کیوں کہ بچہ توجہ حاصل کرنے کے لیے ہی ایسے حربے استعمال کرتا ہے۔۔۔ غصے کے وقت اسے دلیل سے قائل کرنا، اس کے اشتعال میں اضافے کا باعث بنے گا، لہٰذا خاموشی سے اس کی بات سنی جائے۔۔۔ اس کے ساتھ  بچے کی شدید جذباتی حالت کو بدلنے میں چند تعریفی کلمات مفید ثابت ہوتے ہیں، لہٰذا اسے فورا اپنے سینے سے لگا کر یہ احساس دلائیں کہ وہ اس وقت اکیلا نہیں ہے، سب اس کے ساتھ ہیں



بچے کے اندر شدید نفرت کا اثر زائل کرنے کے لیے محبت کا جذبہ بیدار کریں، لیکن یہ جذبہ اسی وقت بیدار ہوگا، جب بچے کو خود بھی محبت حاصل ہو، نشوونما کے مختلف ادوار میں یہی محبت اس میں دوسروں سے محبت کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے، لیکن اگر بچوں کو گھر میں ضروری محبت و شفقت میسر نہ ہو تو وہ اپنے جذبات کو جوان ہو کر پورے معاشرے کے خلاف نفرت کی شکل میں ظاہر کرتے ہیں۔۔۔




٭بچوں کی جذباتی اور سماجی نشوونما میں.تعلیمی ادارے کا کردار



اسکول میں آکر بچے کو ایک وسیع دائرہ میسر آتا ہے، جو اس کے جذباتی اور معاشرتی احساسات  کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اس لیے تعلیمی ادارے کا ماحول انتہائی خوش گوار ہونا چاہیے۔۔۔ مدرسے میں نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں  کے اجرا سے جذبات کا اخراج یا اس کا رخ بدلنے کی کوشش کی جائے، جن بچوں میں غصہ شدید نوعیت کا ہو ان کے غصے کے جذبات کو مقابلے کی شکل میں ڈھال دیا جائے، اس مقصد کے لیے بزم ادب، رسہ کشی، دوڑ کے مقابلوں جیسی سرگرمیاں منفی خیالات کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔۔۔. 


جذباتی عدم توازن کا شکار بچوں کی معمولی کام یابی پر اساتذہ دل کھول کر حوصلہ افزائی کریں، اس کے علاوہ ان کے ذمے  چھو ٹے موٹے کام لگانے چاہیے، مثلاً کمرے یا الماری کی چابی دے دینا، ڈسٹر، چاک وغیرہ کا بندوبست کرنا، یہ وہ کام ہیں کہ جس سے بچہ خود کو اہم محسوس کرتا ہے۔۔۔ اسے لگتا ہے کہ اس کی بھی کوئی حیثیت ہے اور یوں اس کا اعتماد بحال ہونے لگتا ہے، بچوں کو اپنے جذبات کے اظہار کے پسندیدہ طریقوں کی تربیت دیں یہ تربیت ایسی ہونی چاہیے کہ بڑے ہو کر بھی جذبات ان کے کنٹرول میں رہیں۔۔۔.


انھیں اسکول کی سطح پر ایسا ماحول فراہم کیا جائے، جس میں ان کے رویے، مہارتیں، اپنے ہم جماعت کا احترام و محبت اور اعلی معاشرتی تعلقات استوار ہوں، تاکہ وہ نہ صرف اچھے شہری بن سکیں، بلکہ دوسروں کا احساس کرنے والے انسان بھی کہلائیں

Post a Comment

0 Comments