After all, why don't you differentiate between a prostitute and a woman who earns halal bread.

This is a new city. Whether the city is friendly or not, we have been taught from home to follow its requirements. My father often tells me to look around and keep quiet because of my interference in every matter.
Packing has never been difficult for me during shifting, the goods are kept short due to transfer, but sometimes i feel that life is not easy even with limited home items.

According to our Prime Minister Imran Khan, peace can be found only in the grave, so sometimes I take this phrase seriously.

I love to do everything myself whether it's taking the car to a mechanic or taking bread from the oven. I never felt hesitant.

However, women in our area do not see much on the oven. The head of the household, even a 10-year-old boy, is sent out . In fact, it is not the fault of the woman in our area. The culture here is such that it is not considered good for a woman to go out.

But if you talk about the culture of Pindi/ Islamabad, it is totally different, and the woman here is a wee bit independent than that of khaber Pakhtunkhwa. The girls, whether from the city or the village, has become psychologically scared of the news of the sexual assault. After listening to  the news of a four year old girl being sexually assaulted in Breaking news, how can a woman of any age get out of this fear?



This fear also comes with me in every city. I am an ordinary girl from Khyber Pakhtunkhwa and I want to overcome this fear from my mind while living in small and big cities but how? Can someone tell me?

Yesterday I went out to get bread from the oven. The weather was so cold I wrapped the shawl tightly around my arms. And began to take quick steps. The oven was situated at a short distance. Here women were served first on a priority basis. So I would feel comfortable taking bread from here.

I was a little upset today when I saw some boys at the end of the street who were of my nephew's age. It was beyond comprehension why they were standing there. I saw some Teenage girls who were passing by hesitantly. Their smile was vulgar and made dirty gestures. Instead of passing by quietly, I stood up and they stared at me. Their dirty thoughts were adorned on their faces which was sad experience.





They twisted their moustache and scratched their body. I said softly, "Why are you standing in the way? This is inappropriate”. They were on one side, but their style was very embarrassing.

As I passed by, one of them said, "baji yahan ke nahi lagti hy". And then everyone laughed loudly ....

I am older than those boys, maybe I'm of the age of some of their elder sisters, but they didn't care. Tears welled up in my eyes at their utterances ... I turned and saw them, they were still standing there and became a test for every passing boys and girls.



What will happen when they become a mature man? It seemed that Today's boys are tomorrow's vampire. I look at each and every door of this street with hopeful eyes that maybe an uncle or a white haired baba, chacha would come out and ask them, why they were standing there, and show his anger. But unfortunately no one in this street tried to show his responsibility.

Tomorrow, when these children will do something wrong, this society will wake up suddenly and say what happened? Why nobody looks at the satanic eyes of these little boys?

Nowadays, parents are not paying attention to their children's character building. The mother is busy in Facebook activities and she is cooking her food for showing Facebook friends and the father has neglected his responsibilities in the worries of earning money. And they don't know about their son's activities.They think that society is bad, but society is not bad, we are bad who are not willing to fulfill our responsibility of training our children in the right direction.

Now girls can't go out alone for their ordinary work? Why? Or what should women do, if they have no head of the family? How long someone can feed them at home?



After all, a woman has to go out for better life, and talk to someone for her job. How can she judge that the man who is talking about getting her job is actually an old hunter?

If a lustful man blocks the way of a woman who earns bread in a halal way, and if she stops, then believe me, no woman is safe here. After all, why don't you differentiate between a prostitute and a woman who earns halal bre

Translation :

آخر آپ اپنی رضا سے دھندا کرنے والی عورت اور عزت سے روٹی کمانے والی عورت کے درمیان فرق کیوں نہیں کرتے؟  

یہ نیا شہر ہے ـ شہر فرینڈلی ہو نہ ہو ہمیں اس کے تقاضوں کے مطابق چلنے کا درس گھر سے ملا ہے ـ

ابا جی اکثر سمجاتے ہیں کہ اردگرد نظر رکھو اور زبان بند رکھو ـ اور یہ نصیحت وہ میری ہر معاملے میں مداخلت کی وجہ سے کرتے ہیں ـ

شفٹنگ کے دوران سامان پیک کرنا مجھے آسان لگتا ہے ـ

اور ہم ہر دو سال بعد ٹرانسفر کی وجہ سے سامان مختصر رکھتے ہیں ـ

مختصر سامان کے ساتھ بھی زندگی اتنی آسان نہیں ـ

وہ کیا ہے کہ ہمارے پرائم منسٹر عمران خان کے مطابق "سکون صرف قبر میں ہے " تو کبھی کبھی میں اس فقرے کو سنجیدگی سے لے لیتی ہوں ـ

تقریبا اپنا کام خود کرنے کی عادت ہے گاڑی مکینک کے پاس لے جانا ہو یا سبزی منڈی یا پھر تنور سے روٹی لینا ہو، 

. مجھے  کبھی بھی جھجھک محسوس نہیں ہوئی ـ

 

 ـ

حالانکہ ہمارے علاقے میں خواتین تنور پر زیادہ نظر نہیں آتیں ـ گھر کا سربراہ چاہے 10 سالہ لڑکا ہی کیوں نہ ہو اسے بھیجا جاتا ہے ـ

دراصل ہمارے علاقے کی عورت کا قصور نہیں ہے یہاں کا کلچر ہی ایسا ہے کہ عورت کا باہر نکلنا زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا ـ

لیکن اگر آپ پنڈی اسلام آباد کی بات کریں تو یہاں کا کلچر  

مختلف ہے اور یہاں کی عورت قدرے خود مختار ہے ـ





لیکن لڑکی چاہے شہر کی ہو یا گاؤں کی، نفسیاتی طور پر

جنسی حملے کی خبروں سے خوفزدہ سی ہو گئی ہے ـ

جب ایک چار سالہ بچی کو جنسی تشدد کا نشانہ بننے کی خبر بریکنگ نیوز میں ملتی ہے تو پھر کسی بھی عمر کی عورت اس خوف سے کیسے نکل سکتی ہے؟

ایک نئے شہر میں ایسے ہی خدشات مجھے بھی پریشان کرتے ہیں

میں خیبر پختون خواہ کی اک عام سی لڑکی ہوں چھوٹے بڑے شہروں میں رہتے ہوئے اپنے زہن سے اس خوف کو بھی کھرچنا چاہتی ہوں مگر کیسے؟

کوئی مجھے بتائے گا؟

کل میں تنور پر روٹی لینے کے لیے نکلی ـ

موسم  انتہائی سرد تھا میں نے شال کو مضبوطی سے اپنے بازوؤں پر لپیٹا، اور تیز تیز قدم اٹھانے لگی ـ

تنور کچھ فاصلے پر تھا

یہاں خواتین کو ترجیحی بنیادوں پر پہلے فارغ کیا جاتا ہے ـ اس لیے مجھے یہاں سے روٹی لینے میں سہولت محسوس ہوتی ـ

آج میں تھوڑا اپ سیٹ ہوئی جب تنور والی گلی کے سرے پر میں نے کچھ لڑکوں کو دیکھا جو میرے بھتیجے کی عمر کے تھے ـ گلی میں رستہ روکے لڑکوں کے پاس سے چند ٹین ایج لڑکیاں ہچکچاتے ہوئے گزر رہی تھیں وہ انھیں مسکرا کر دیکھتے اور سرگوشیاں کرتے ـ تو میری مٹھیاں بھینچ سی    گئیں ـ  یہ اتنی ٹھند میں کیوں کھڑے ہیں .

میرے اطراف بے چینی سی پھیلی...

میں خاموشی سے نہیں گزر پائی اور رک گئی تو انکی آنکھوں میں تجسس ابھرا..  پہلے وہ اپنی ننھی منی  مونچھوں کو مروڑتے ہیں اور پھر اپنی مخصوص جگہ کو کھجاتے ہیں ـ

اتنا تو سمجھتی تھی کہ انہیں خارش کیوں لگ گئی  لیکن میں ہی کیوں نظر چرانے لگی یہاں مجھے یہ سمجھ نہیں  لگ رہی تھی.. اتنی بے بسی کیوں ہے، اب غصہ خود پر آنے  لگا..

میں وہاں سے چپ چاپ گزرنے کی بجائے کھڑی ہو گئی تو وہ مجھے گھورنے لگے ـ

ان کی زہنیت ان کے چہروں پر سجی ہوئی تھی جسے دیکھ

کر مجھے افسوس ہوا





وہ اپنی نامکمل مونچھوں کو مسلسل تاؤ دیے رہے تھے ـ

اور اک میں تھی جو ان کے جگہ جگہ کھجلاتے جسم پر سے نظریں چرا رہی تھی ـ

میں نے نرم لہجے میں کہا راستے میں کیوں کھڑے ہو بچے؟ یہ نامناسب بات ہے ـ

تو وہ ذومعنی انداز میں مجھے دیکھتے ہوئے سائیڈ پر ہو گے...

میں گزری تو ان میں سے کسی نے کہا " باجی ادھر کی نہیں لگتی..." اور پھر ایک زور دار قہقہہ تھا جو دیر تک سنائی دیتا رہا..





میں جو ان بچوں سے کافی بڑی ہوں شاید ان کی کسی باجی کی عمر کی تو ہوں گی لیکن انھیں کوئی پروا نہ تھی.. ان کے فقرے باذی پر میری آنکھوں میں آنسو آگے...

میں نے مڑ کر انھیں دیکھا وہ بھی وہیں کھڑے تھے اور وہاں سے گزرتے ہر لڑکا لڑکی کیلئے آزمائش بن رہے تھے

یہ کل کے بچے جوان ہونے کی جلدی میں جب پختہ مرد بن گئے تو کسی ویمپائر سے کم نہیں ہوں گے ـ

میں اس گلی کے ایک ایک دروازے کو امید بھری نظروں سے دیکھتی ہوں کہ شاید یہاں اسے کوئی چاچا  یا سفید بالوں والا بابا نکلے جو ان کے یہاں کھڑا ہونے کا سبب پوچھے اور انھیں غصہ کرے ـ

لیکن افسوس اس گلی کے کسی فرد نے بھی اپنی ذمہ داری دکھانے کی کوشش نہیں کی ـ

کل جب یہی بچے کچھ غلط کر بیٹھیں گے تو یہ سماج ایک دم جاگ کر کہے گا کہ یہ کیا ہو گیا؟

چھوٹی چھوٹی سی عمروں میں ہوس کی اتنی بڑی آنکھیں کسی کو دکھائی کیوں نہیں دیتیں؟

آج کے دور میں تربیت نہ ماں کر رہی ہے نہ باپ

ماں کے ہاتھ میں فیس بک ہے اور وہ اپنی تربیت کھانا پکا کر فیس بکیوں پر لٹا رہی ہے اور باپ کمانے کی فکر میں اپنی زمہ داریوں سے غافل ہو گیا ہے ـ

اور بچہ کیا کر رہا ہے کسی کو پتہ ہی نہیں...!

بچپن میں ہی بچہ غلط سمت اور صحبت کا شکار ہو رہا ہے ـ

اور پھر کہتے ہیں سماج خراب ہے، دراصل سماج نہیں، ہم اور آپ خراب ہیں جو بچے کی بہترین تربیت کے وقت اپنی زمہ داریوں سے غافل ہو گے ہیں ـ

 اب. لڑکیاں اپنے چھوٹے سے کام کے لئے بھی اکیلی نہیں نکل سکتیں؟ کیوں؟ 



یا جن خواتین کے سربراہ نہیں ہیں وہ عورتیں کہاں جائیں؟ آخر کوئی کسی کو کب تک گھر میں بٹھا کر کھلا سکتا ہے؟ روٹی کمانے کے لئے ایک عورت کو باہر نکلنا ہی پڑتا ہے ـ نوکری کے سلسلے میں اسے کسی نہ کسی پر اعتبار تو کرنا ہی ہے ـ

وہ یہ کیسے جج کرے کہ جو انسان اسے نوکری دلانے کی بات کر رہا ہے وہ دراصل ایک پرانا شکاری ہے ـ

اگر سماج میں عورت کی باعزت روٹی کمانے کے راستے پر ایک خارش زدہ ہوس پرست مرد بیٹھ گیا ہے تو پھر سماج کی عام عورت ہی نہیں آپ کے بلند و بالا قلعے میں موجود عورت بھی محفوظ نہیں رہے گی ـ

آخر آپ اپنی رضا سے دھندا کرنے والی عورت اور عزت سے روٹی کمانے والی عورت کے درمیان فرق کیوں نہیں کرتے؟